آج کل سابق وزیر اعظم عمران خان اپنا تخت بنی گالا چھوڑ کرلاہور کے زمان پارک میں پناہ گزین ہیں۔ مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت ہونے کی وجہ سے انھیں خطرہ ہے کہ ان پر موجود کیسز کی وجہ سے کسی وقت بھی اسلام آباد سے گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ عمران خان کی موجودہ حکمت عملی سے واضح ہے کہ وہ پوری کوشش کرر ہے ہیں کہ وہ کسی بھی ممکنہ گرفتاری سے بچ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے خیبر پختونخوا بھی نہیں جا رہے۔ اس وقت زمان پارک کو ایک قلعہ کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ جہاں سے عمران خان روزانہ ایک فرمان اور بیان جاری کرتے ہیں۔اس فرمان کے پیچھے صرف ایک ہی خواہش پنہاں نظر آتی ہے کہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنایا جائے۔ چند دن قبل عمران خان نے اپنے پارٹی عہدیداران کو ٹاسک دیا کہ ڈور ٹو ڈور مہم چلائی جائے کہ اگروہ گرفتار ہوئے تو لوگ ویسے ہی سڑکوں پر نکل آئیں جیسا کہ ترک عوام طیب اردوان کے لئے سڑکوں پر نکلے تھے۔ عوامی دباؤ اتنا ہونا چاہئے کہ ایک کال پر پورا ملک سڑکوں پر نکل آئے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ عوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت انھیں گرفتار نہیں کر سکے گی۔ یعنی عمران خان اپنے کیسز کیخلاف عوام کو ڈھال بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے جب یہ بیان پڑھا تو میری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ میں کافی دیر تک قہقہے لگاتا رہا۔ لیکن مجھے فوراً ہی احساس ہوا کہ میرے ارد گرد موجود لوگ میری اس ہنسی کی وجہ نہ سمجھنے کے باعث مجھے حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ میں خود سے سوال کر رہا تھا کہ عمران خان نے اس ملک و قوم کے لئے ایسا کیا کیا ہے جو پورا ملک ان کی ایک کال پر باہر نکل آئے گا؟ کیا یہ لوگ ملک کے آئین اور جمہوریت کے نام پر باہر نکلیں گے یا کسی ایک شخص کی کرپشن کو بچانے کے لئے باہر آئیں گے؟ میری آنکھوں میں وہ مناظر ایک ایک کر کے ریل کی مانند چل رہے تھے۔ جب ترک عوام طیب اردوان کی کال پر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ انقرہ اور استنبول میں لاکھوں شہریوں نے گھروں سے باہر نکل کر فوجی بغاوت کا مقابلہ کیا۔عوام نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔ جمہوریت کو بچانے کے لئے ایک سو بیس زائد شہریوں نے اپنی جانوں نذرانہ پیش کیا۔ ترک عوام نے ترکی میں فوجی بغاوت کا باب ہمیشہ کیلئے بند کردیا جو کبھی نہیں کھلے گا۔ اس بغاوت میں شامل افسران کوعہدوں سے فارغ کر دیا گیا۔ بغاوت میں شامل کئی کمانڈرز کو سزائیں سنائی گئیں۔ اس کامیاب عوامی آپریشن کے بعد جب طیب اردوان پہلی بار عوام میں آئے تو انھوں نے تاریخی الفاظ کہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک جھنڈے تلے جمع تمام ترک عوام ایک ریاست چاہتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست نہیں بننے دیں گے۔ آج کا ترکی پہلے سے مختلف ہے، پولیس اور فوج جمہوریت پسند ہے۔ عوام نے جمہوریت کے خلاف سازش ناکام بنا دی ہے۔عوام کی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔ ملک کے اتحاد اور استحکام
کے خلاف سازش کی گئی تھی۔غداری کرنے والوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ عوام جانتے ہیں کہ انھوں نے کسے منتخب کیا ہے اوراس کی کس طرح حفاظت کرنا ہے۔ 16 جولائی ترکی کی تاریخ میں امر ہو گیا۔ یہ دن اب یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اب ترک عوام سے جمہوریت کی محبت کو نہیں چھینا جا سکتا۔ آج بھی میں سوچتا ہوں کہ ترک عوام طیب اردوان کے لئے باہر کیوں نکلے؟ کیا طیب اردوان نے انھیں اپنی ذات کی خاطر نکلنے کا کہا تھا؟ طیب اردوان ہیں کون اورانھوں نے اپنی قوم کے لئے کیا کیا؟ یاد رکھیں کہ قوموں کی عظمت کا فرق ان کی لیڈر شپ سے پہچانا جاتا ہے۔ جب اقوام کو وطن پرستی کے جذبے سے سرشاربے لوث قیادت میسر آجائے تو ان کی قسمت بدل جاتی ہے ورنہ بظاہر آزادی کے باوجود غلامی مقدر بن جاتی ہے۔ رجب طیب اردوان سے قبل یورپ کے مرد بیمار ترکی کی حالت انتہائی خراب تھی۔ترکی کے موجودہ حکمران رجب طیب اردوان ترکی کے ایک معمولی کوسٹ گارڈ کے گھر میں چھبیس فروری انیس سو چون میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کانام احمد اردوان اور والدہ کانام ٹینزائل ہے۔ جب طیب اردوان تیرہ سال کے تھے تو ان کی فیملی استنبول میں جابسی۔ان کی فیملی کے مالی حالات اس قدر خراب تھے کہ رجب طیب اردوان کوبچپن میں سکول کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے ٹافیاں،ڈبل روٹی اور شربت فروخت کرنا پڑا۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ قاسم پاشا سے حاصل کی۔جہاں اسلامی اور مغربی تعلیم دونوں دی جاتی تھی۔انیس سو پینسٹھ میں قرآن پاک حفظ کرکے فارغ ہوئے۔اسکے بعد امام خطیب ہائی سکول سے تعلیم حاصل کی۔انیس سو تہتر میں میٹرک اور دیگر اضافی مضامین پاس کرکے ایوب ہائی سکول سے ڈپلومہ کی سند حاصل کی۔ مرمرہ یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن ڈگری حاصل کی۔ طیب شروع ہی سے سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے۔ 1986 میں استنبول میں یوتھ پارٹی کے ہیڈ مقرر ہوئے۔مارچ انیس سو چورانوے میں استنبول کے مئیر منتخب کئے گئے۔ اس وقت استنبول پانی کی قلت،آلودگی اور ٹریفک جیسے مسائل کا شکار تھا۔ان مسائل کوختم کرکے انہوں نے استنبول کو جدید شہر کی شکل دی اورکرپشن کو جڑسے ختم کردیااور استنبول کے دو بلین ڈالر کے قرضے کا بڑا حصہ بھی واپس کردیا۔انیس سو اٹھانوے میں ایک جلسے میں اسلامی نظم پڑھنے کے جرم میں چار مہینے کی سزا سنائی گئی اور مئیر شپ سے بھی ہٹادیاگیا۔دو ہزار ایک میں انہوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے نام سے ایک پارٹی بنائی۔دوہزار دوکے الیکشن میں ان کی پارٹی نے دوتہائی ووٹ لے کر فتح حاصل کی۔تب سے اب تک یہ پارٹی ترکی کی حکومت کوکامیابی سے سنبھالے ہوئے ہے۔رجب طیب اردوان کے سفر میں بہت سی مشکلات آئی مگر طیب اردوان نے ہمت نہ ہاری۔ فوج اور بیورکریسی کی مخالفت کے باوجود فتح حاصل کی۔ اداروں کو مضبوط بنا کر ترکی کی قسمت بدل کر رکھ دی۔ تیسری دنیاکا ملک کہلانے والا ملک آج دنیا کی انیسویں بڑی اقتصادی طاقت ہے۔کرپشن، بے ایمانی اور خود غرضی سے پاک لوگ ہی لیڈر کہلانے کے حقدار ہوتے ہیں۔طیب اردوان وہ شخصیت ہیں جس نے ترکی کو ایک تباہ شدہ معاشی حالت سے نکال کر ایک مضبوط معیشت بنایا۔ ترکی اب معاشی طورپر کئی یورپی ممالک سے زیادہ مضبوط ہے۔ رجب طیب اردوان کی کامیابی کی بڑی وجوہات اپنے ہی ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد درجہ بہ درجہ سرکاری اور سیاسی عہدوں پہ فائز ہونا،اپنے ملکی قوانین سے واقفیت،کرپشن سے پاک معاشرے کا قیام،عوامی مساوات برقرار رکھنا،میرٹ کی بحالی،غریبوں کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنا ہے۔اس عظیم شخصیت کی لیڈرشپ عالم اسلام کے تمام حکمرانوں کیلئے ایک روشن مثال ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے لیڈر چاہتے ہیں کہ عوام ان سے طیب اردوان کی طرح محبت کرے۔ ان کی ایک کال پر اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر سڑکوں پر نکل آئے۔ عمران خان بھی بائیس برس کی جدوجہد کے دعویدار ہیں۔ لیکن جب انھیں اقتدار ملا تو اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے انھوں نے انھیں مزید کمزور کر دیا۔ عمران خان جب اقتدار میں آئے تو ان کا کوئی ہوم ورک نہیں تھا۔ انھوں نے پونے چار برس میں معیشت کے ساتھ صرف تجربات کئے۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا۔ اس وقت ملک کی ابترمعاشی صورتحال عمران خان کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ عمران خان اپنے تمام تر دعووں کے باوجود کچہری اور تھانہ کلچر نہ بدل سکے۔ اپوزیشن کے ساتھ عمران خان نے بات کرنا پسند نہ کی جس کے نتیجے میں پارلیمان کمزور ہوئی۔ عمران خان احتساب کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے دور میں صرف نیب کا ادارہ فعال تھا۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھاکہ نیب کا ادارہ تو دراصل کسی اور کے کنٹرول میں تھا۔ جناب اگر آپ کی حکومت اسقدر کمزور تھی تو کیوں اقتدار سے چپکے رہے؟ شروع میں ہی اقتدار کو خیر آباد کیوں نہ کہہ دیا؟ صرف اس لئے کہ آپ کے ارد گرد موجود مافیاز کو زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کاموقع مل سکے۔ توشہ خانہ کے تحائف سے لے کر آٹا، چینی، گیس اور منی لانڈرنگ کے سارے سکینڈل کے سرے آپ کی حکومت تک پہنچتے ہیں۔ اس سے بڑی ملک دشمنی کیا ہوگی کہ سی پیک پر کام بند کر دیا گیا۔ عمران خان کے پورا پونے چار سالہ دور کی کارکردگی سوشل میڈیا کے علاوہ کہیں نہیں دکھائی دیتی۔ آج بھی پراپیگنڈے کے زور پر خان صاحب عوام کو حکومت اور اداروں سے متنفر کر رہے ہیں۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کر جائے(خدانخواستہ) اور وہ ثابت کر سکیں کہ وہ ہی اصل مسیحا ہیں۔ کیا یہ ہے وہ لیڈر شپ جو طیب اردوان نے ترکی کو دی تھی؟جس کا خواب عمران خان دیکھتے ہیں۔ جناب لیڈر وہ ہوتا ہے جو کسی کے آگے جھکے نہ بِکے، قوم کو مشکل حالات سے نکالے۔ ہر مشکل میں قوم کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہے۔اب قوم کو جھوٹ کے سراب سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔
عمران خان کا خواب اور میری ہنسی
09:40 AM, 12 Jan, 2023