آپ نے پاکستان کے قومی دن کے موقع پر ہونے والا ائیر شو دیکھا ہوگا جس میں ہمارے ہوا باز یا پائلٹ کمال ہنر مندی سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوائی جہاز کے کرتب دکھانے کا مظاہرہ کرتے ہیں کبھی وہ فضا میں قلابازیاں لگاتے ہیں کبھی عمودی طور پر بالکل سورج کے سمت اڑتے ہیں اور کبھی طیارے کا رخ زمین کی طرف کر کے اتنی تیزی سے نیچے کی طرف آتے ہیں کہ جیسے زمین سے ٹکرا جائیں گے مگر پھر وہ جہاز کو اوپر اٹھا لیتے ہیں کئی دفعہ وہ ٹولیوں کی شکل میں اڑتے میں اور رنگا رنگ دھواں چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں ہماری ائیر فورس کا نعرہ شاعر مشرق کا مشہور شعر ہے کہ
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
پاکستان کی افرادی قوت کا کرشمہ دیکھئے کہ جو کچھ ایف 16 اور تھنڈر جیسے super sonic ائیر کرافٹ ہواؤں اور بادلوں میں جا کر کرتے ہیں ہمارے ملک کے چنگچی ڈرائیور یہ سب کچھ لاہور کی سڑکوں پر کر رہے ہیں گویا چنگچی رکشہ غیر علانیہ طور پر 16-F اور تھنڈر طیاروں کا Ground Variant ہے یہ گلی محلے سے لے کر شہر کی مین شاہراہوں ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنا لوجی جتنی مرضی ترقی کہ جائے فیس بک کے ان پڑھ بانی مارک زکر برگ جتنی مرضی نئی APPایجاد کر لیں وہ چائنا کے چنگچی رکشے کا مقابلہ نہیں کر سکتے جس نے پاکستان کی زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چنگچی کے مقابلے میں مارک زکر برگ کا نمبر دوسرا ہے۔ سب سے پہلے تو اس کے نام پر غور کریں تو آپ تسلیم کریں گے کہ جیسا نام ویسا کام۔
ہمارے خان ہر سکول جانیوالا بچہ ڈاکٹر یا پائلٹ بننے کے خواب دیکھتا ہے جو ڈاکٹر نہیں بن پاتے وہ موٹرسائیکلوں کے ڈاکٹر بن جاتے ہیں اسی طرح اب ہر بچہ پائلٹ تو نہیں بن سکتا مگر وہ ہواؤں میں اڑنے کی اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا ہو تو بالآخر چنگچی اس کی امیدوں کا چراغ بجھنے نہیں دیتا تووہ جہاز کے بجائے چنگچی پائلٹ بن جاتا ہے دونوں میں تو بس زمین اور آسمان کا ہی معمولی سا فرق ہے مگر ایڈونچر کی بات کریں تو زمینی پائلٹ کے مارکس شاید کچھ زیادہ ہی ہوں گے۔ چنگچی پوری ایک راکٹ سائنس ہے جو کتابوں سے نہیں بلکہ سڑکوں پر سیکھی جاتی ہے اس میں نہ کوئی کلاس ہے نہ کتابیں ہیں، نہ انسٹرکٹر ہے یہ ایک سیلف سٹڈی ہے جو ہمارے چنگچی ماسٹر اپنے قدرتی صلاحیت کا پورا پورا استعمال کر کے سیکھتے ہیں۔
امریکہ سے ہمارے ایک دوست جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں وہ چنگچی سے بہت متاثر ہیں وہ کہتے ہیں کہ چنگچی کا کٹ اور حسینوں کے ماتھے کا وٹ یہ برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ چنگچی کا 90 ڈگری والا کٹ کسی تلوار سے کم نہیں ہوتا ویسے ڈاکٹر صاحب کی پوری ڈاکٹرائن تو یہ ہے کہ چنگچی کا کٹ اور اس کے ماتھے کا وٹ چرسی ”سٹ“ اور ”رجیا ہو یا جٹ“ (یعنی کھاتا پیتا) یہ چاروں برداشت سے باہر ہیں۔ لیکن ہمارا موضوع چونکہ صرف چنگچی رکشہ ہے لہٰذا ہم بات چیت کو وہاں تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں البتہ چرسی کی ’سٹ‘ چنگچی میں بھی Relevant ہے کیونکہ ہمارے ہاں بہت سے چنگچی چلانے والے چرس کے ذائقے اور اس کے اثر سے خاصے آشنا ہیں لہٰذا جب وہ چرس کے اثر و نفوذ کے بعد محو پرواز ہوتے ہیں تو فلائٹ کی Human cost اور بڑھ جاتی ہے اور چرسی کی لگائی ہوئی سٹ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ اس میں سبق یہ ہے کہ غلط کام کوئی بھی ہو وہ خطرناک ہوتا ہے نتائج کے اعتبار سے بہت مہنگا پڑتا ہے اس پر طرہ یہ ہے کہ وہ کام اگر چرسی کر رہا ہو تو موجودہ خطرات پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتے ہیں اس لئے چنگچی کا کٹ اور چرسی کی سٹ سے بچیں حسینوں کے ماتھے کے وٹ کی خیر ہے اس کا بہترین علاج آپ کی بیگم کے پاس ہے اور اگر بیگم نہیں ہے تو آپ کا علاج آٹو میٹک ہو جائے گا۔
ایک دفعہ دو چنگچی نہایت خطرناک انداز میں ریس لگا رہے تھے۔ ہمارے والے چنگچی کی سواریوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ رفتار آہستہ کرو ڈرائیور نے انتہائی غصے شرمندگی اور شکست خوردہ انداز میں برابروالے جنگی کو راستہ دیتے ہوئے کہا ”میریاں سواریاں بے غیرت نہ ہوندیاں تے تینوں میں دسدا“ بعد میں پتہ چلا کہ اس روٹ پر چنگچی کا 20-T گزشتہ ایک ماہ سے جاری تھا اور آج وا لا مقابلہ اصل میں فائنل تھا جس پر ساری چنگچی اور کمیونٹی کی نظریں لگیں ہوئی تھیں مگر کچھ نا معقول سواریوں کے مطالبے پر بے چارے ڈرائیور کو ناک آؤٹ ہونا پڑا۔
چنگچی والوں کا فنون لطیفہ سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ جب تک فل آواز سے گانا نہ لگائیں چنگچی انہیں مزہ نہیں دیتا۔ ایک دفعہ ایک چنگچی میں بہت بے ہودہ گانے لگے ہوئے تھے ہم نے اسے کہا کہ اسے بند کر دو یا آواز آہستہ کر دو اس نے کہا کہ یہ میں نے آپ کے لئے نہیں اپنے سننے کیلئے لگایا ہے میری ٹیپ میری مرضی۔ ہم نے مزید احتجاج کرنا چا ہاتو صاحب چنگچی نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی اور مجھے اترنے کا اشارہ دیا میں نے کہا یہ کیا اس نے کہا کہ باؤ جی تسیں پچھلی گڈی وچ آجانا۔
سڑک پر سفر کرتے ہوئے ہر کوئی ان سے ڈرتا ہے خصو صاً نئی گاڑیوں والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ چنگچی کے قریب مت جانا یہ چھیل کے رکھ دیں گے اور مڑ کے بھی نہیں دیکھیں گے۔ چنگچی کی تعداد میں ہوشربا اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک کلومیٹر کا 20 روپے کرایہ لیتے ہیں۔ بے روزگاری کے اس دور میں ان کا یومیہ Revenue بہت زیادہ ہے۔عوام میں پیدل چلنے کی عادت نہیں ہے جس کا فائدہ انہیں ہوتا ہے لاہور میں آدھے سے زیادہ چنگچی فنکار وہ ہیں جو نو عمر ہیں جن کا شناختی کارڈ بھی نہیں ہوتا مگر وہ قانون کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
چنگچی کی کامیابی کا ایک راز یہ ہے کہ ان گلیوں میں جہاں کوئی سواری نہیں جا سکتی یہ پہنچ جاتے ہیں دوسرا یہ بڑی گاڑیوں سے جلدی پہنچاتے ہیں یہ سرخ اشارے کو عبور کرنے میں خاص مہارت رکھتے میں اور ٹریفک جام میں راستہ بنانے کے ماہر ہیں ان کی سواری کا ایک میڈیکل فائدہ بھی ہے جو حضرات دل کے امراض یا جوڑوں کے درد کی وجہ سے واک نہیں کر سکتے مگر اپنا کھانا ہضم کرنا چاہتے ہیں وہ Gym جانے کے بجائے چنگچی کی خدمات حاصل کریں ضرور افاقہ ہو گا۔
چنگچی جب اوور لوڈ ہوتا ہے تو یہ پیچھے کی طرف الٹ جاتا ہے اس صورتحال کے سدباب کیلئے چنگچی ڈرائیور ایک سواری کو اپنی پچھلی سیٹ پر بطور co-pilot بٹھاتے ہیں تاکہ گاڑی کا منہ آسمان کی طرف نہ ہو جائے۔ آج کے اس دور میں جب ادب سے دلچسپی کم ہو رہی ہے چنگچی رکشے اپنے clients کے اد بی ذوق کی نشوونما میں خاصا کردار ادا کر تے ہیں۔ ایک چنگچی کے پیچھے لکھا تھا دل برائے فروخت قیمت صرف ایک مسکراہٹ۔ ایک اور دل جلے نے تو حد کردی اس کی پوری لو سٹوری دو الفاظ پر مشتمل تھی اس کے لکھا تھا ”چل جھوٹی“۔ ایک دفعہ ہم اپنی گاڑی 60 کلومیٹر سے اوپر کی رفتار سے چلا رہے تھے ہمیں آناً فاناً ایک برق رفتار چنگچی نے کر اس کیا جس کے پیچھے لکھا تھا ”ڈر سے آگے جیت ہے“۔ اس کالم میں جو چیز قطعی طور پر مذکور نہیں بلکہ غیر حاضر ہے وہ ٹریفک وارڈن یا سٹی پولیس ہے جن کے پاس آج تک اس پبلک ٹرانسپورٹ کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی سسٹم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ بہت سے چنگچی والوں نے تو چالان سے بچنے کیلئے پیچھے ٹریفک پولیس زندہ باد لکھا ہوتا ہے پرانے دور میں موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلایا جاتا تھا وہ سرکس اب بند ہو چکا ہے کیونکہ چنگچی کی آمد کے بعد اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔