جنیوا میں ہوئی ڈونر کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کی حکومت بجا طور پر مبارک باد کی مستحق ہے۔اس میں وزیراعظم میاں شہباز شریف اور جواں سال وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی انتھک محنت نے بنیادی کردار ادا کیا اور جو لوگ بلاول پر بیرونی دوروں کے حوالے سے تنقید کر رہے تھے یہ کانفرنس ان سب کے لئے شٹ اپ کال بھی ہے کہ اگر خود کچھ نہیں کر سکتے تو دوسروں کو تو کرنے دیں۔ اس کانفرنس کے دو سیشن ہوئے اور یہ کوئی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی کانفرنس نہیں تھی کہ جس میں چند وزراء سطح کے لوگ شریک ہوتے اور پاکستان کے ساتھ زبانی کلامی ہمدردی کا اظہار کرتے اور قصہ ختم لیکن ایسا نہیں ہوا سب سے پہلے تو یہی دیکھ لیں کہ اس کانفرنس کی صدارت پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے مشترکہ طور پر کی جبکہ اس میں ترکی فرانس اور سوئس صدور کے علاوہ دیگر سربراہان مملکت نے بھی شرکت کی۔ پہلے اور دوسرے سیشن میں مجموعی طور پر 10 ارب 57 کروڑ ڈالر امداد کے اعلانات کئے گئے۔ یہ امداد پاکستان کی درخواست سے تقریباً ڈھائی ارب ڈالر زیادہ ہے۔ جس میں سب سے زیادہ اسلامی بنک نے 4 ارب 20 کروڑ اور ورلڈ بنک نے 2 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا جبکہ سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر دینے کا کہا اسی طرح کانفرنس میں شریک چین، امریکہ، جرمنی، فرانس، جاپان، یورپین یونین اور دیگر ممالک نے بھی امداد کا اعلان کیا۔
کچھ لوگوں کو اس کانفرنس کا انعقاد اور توقعات سے بڑھ کر اربوں ڈالر کی امداد کے اعلانات ہضم نہیں ہو رہے اس لئے کہ وہ تو مسلسل اس کی ناکامی کا پروپیگنڈا کر رہے تھے اور خبط عظمت میں مبتلا لوگوں کو اس بات کی توقع ہی نہیں تھی کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اسی لئے اب کہا جا رہا ہے کہ امداد تو ایک قسم کی بھیک ہوتی ہے تو اس پر اتنا خوش ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ جو لوگ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اس طرح کی گفتگو کر رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اول تو کامیاب سفارت کاری اور محنت کے بغیر اس کانفرنس کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا دوسرا ہم مشکور ہیں ان تمام ممالک اور اسلامی ورلڈ بنک کے کہ جنھوں نے اس مشکل وقت میں ہماری مدد کی حامی بھری ہے لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ بدترین سیلاب کی شکل میں پاکستان کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا یہ کوئی فطری انداز میں نہیں ہوا بلکہ صنعتی میدان میں امیر ترین ممالک کو سائنسدان ایک عرصہ سے اس حوالے سے متنبہ کر رہے تھے کہ اگر انھوں نے فطری ماحول کو تاراج کرنے والی اپنی صنعتوں میں حفاظتی اقدامات نہ کئے تو اس کرہ ارض کا انسان دوست ماحول تباہ ہو جائے گا۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں ٹاپ ٹین میں شامل ہے اور جس قدر نقصان حالیہ سیلاب سے ہو
چکا ہے اس میں قرض نہیں بلکہ اس نقصان کے ازالہ کے لئے پاکستان کا حق بنتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے تاکہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے وہ کروڑوں لوگ کہ جن کے گھر، فصلیں اور کاروبار سب کچھ تباہ ہو چکا ہے انھیں دوبارہ گھروں میں آباد کیا جا سکے تاکہ وہ دوبارہ معمول کی زندگی گزار سکیں۔
پاکستان کے سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے جنیوا میں ہوئی ڈونر کانفرنس ان لوگوں کے لئے ایک تازیانہ ہے کہ جو گذشتہ کئی ماہ سے وطن عزیز کو دیوالیہ کرنے کی خواہش لئے بیٹھے ہیں اور صرف خواہش ہی نہیں بلکہ اپنی اس گھناؤنی خواہش کی تکمیل کے لئے کوشش بھی کر رہے ہیں قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ جب آئی ایم ایف سے بات ہورہی تھی تو ان مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کے لئے شوکت ترین نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کو کالز کر کے تعاون نہ کرنے کا کہا تھا جس پر پنجاب کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ کیا یہ بات ملکی مفاد کے خلاف نہیں ہے لیکن اس کے بعد بھی آج تک ہر ممکن طریقہ سے کوشش کی جا رہی ہے کہ کچھ بھی ہو کسی طرح خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کر جائے اور اسحق ڈار اور وزیر اعظم کی واضح یقین دہانیوں کے باوجود اب بھی یہ کام جاری ہے اور مسلسل دیوالیہ ہونے کا ملک دشمن پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور اب تو دنیا بھر میں کاروباری امور پر دسترس رکھنے والے بلوم برگ ایسے معتبر ادارے نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔
اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے ایک بات تو طے ہو گئی کہ دنیا موجودہ حکومت کو اس نظر سے نہیں دیکھتی کہ جس کا اظہار عمران خان اپنی ہر تقریر میں کرتے کہ ان چوروں اور ڈکیتوں کی حکومت کو کوئی امداد نہیں دے گا یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس ڈونر کانفرنس نے اپنوں کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے یاد کریں کہ عمران خان نے کراچی پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن سندھ حکومت کو یہ کہہ کر پیسے دینے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ چوروں کی حکومت ہے تمام تر منفی پروپیگنڈہ کے باوجود بھی اس چوروں کی حکومت نے جس میں سندھ اور وفاقی دونوں حکومتیں شامل ہیں گذشتہ چھ ماہ سے کروڑوں سیلاب متاثرین کو جس بہترین اور احسن انداز سے سنبھالا ہے اس کی داد دینی چاہیے اس لئے کہ آج ہی واٹس ایپ پر ایک وڈیو دیکھی جو امریکہ کے علاقہ بیفلو سے کسی نے بھیجی ہے جہاں برف کے طوفان سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور کال کرنے والا انتہائی بے بسی کے عالم میں بتا رہا ہے کہ 911 بند ہو گیا ہے اور سخت سردی میں بجلی کے تار کٹے ہوئے ہیں اور گھروں میں راشن بھی نہیں ہے اور دعا کی درخواست کی گئی ہے خدائے پاک ان کی مشکلات دور فرمائے اب اگر ایک برف کا طوفان دنیا کی سپر پاور کو مفلوج کر سکتا ہے اور وہاں کے شہری سراسیمگی کی حالت میں دنیا سے دعائے خیر کا کہہ رہے ہیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایسے ترقی پذیر ملک کو اگر تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا اور چھ ماہ سے اگر ان کروڑوں سیلاب متاثرین کی نگہداشت ہو رہی ہے تو امریکہ چین کی نسبت کم وسائل رکھنے والے ملک کے لئے کتنا مشکل کام ہو گا۔ ڈونر کانفرنس کا کامیاب انعقاد یقینا خوش آئند بات ہے لیکن مستقبل کے حوالے سے ہمیں اور دنیا کو بھی قدرتی آفات سے بچاؤ کے لئے مثبت اقدامات کرنا ہوں۔ پاکستان کو تو پانی زخیرہ کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر اقدامات کرنے چاہئے تاکہ غیر متوقع بارشوں کی تباہی سے بچا جا سکے اور جس طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے لئے پانی کی کمی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوسا جا رہا ہے اس حوالے سے بھی ہمیں چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے اور پھر ہر سال دو سال کے بعد ہمیں کہیں سے اتنی زیادہ امداد نہیں ملے گی۔اس کے علاوہ بڑے صنعتی ممالک کو بھی اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ انھیں اپنی صنعتوں کو ماحول دوست بنانا پڑے گا اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے گا اور ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ان تبدیلیوں کا باعث بننے والے ممالک خود اس کی لپیٹ میں آ جائیں۔ مدد کرنا اچھی بات ہے لیکن اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لئے اقدامات کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔