لاہور: سوسائٹی برائے انجینئرنگ کے صدر انجینئر سید منصور علی رضوی اور انکی کابینہ کے ممبران نے اریگشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی جانب سے واٹر ریسورس کمیشن اور واٹر سروسز ریگولیڑی اتھارٹی جو کہ پنجاب واٹر ایکٹ 2019 کے تحت عمل میں آئی ہے کیلئے جن نئی آسامیوں کا اجرا کیا گیا ہے اس میں زرعی انجینئرز کو مقابلے میں شامل نہیں کیا گیا۔
زرعی انجینئرنگ سوسائٹی نے اس امر پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ تمام احباب حل و عقد کو خط بھی ارسال کیا گیا ہے۔ جس میں یہ باور کروایا گیا ہے کہ ان آسامیوں میں تعین کردہ بنیادی کام زراعت میں پانی کی بچت کے حوالے سے ہے جسکی تمام تعلیم و تربیت صرف زرعی انجینئرز کے پاس ہے کیونکہ ان کی تعلیم کا محور اور مرکز زراعت کو ترقی دینا ہے۔ زرعی فارم تک پانی کی ترسیل ، زرعی زمینوں میں کاشت اور بالخصوص اس امر کو یقینی بنایا کہ زیرزمین اور سطح زمین پر پانی کی ترسیل کیلئے تمام انتظامی اور تکینکی طریقے بروئے کار لا کر زمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جائے ۔ یہ امر انتہائی افسوس کا باعث ہے کہ ان آسامیوں میں صرف سول انجیئنرز کو مقابلہ کی اجازت دی گئی ہے۔ جن کی نصابی ترجیحات میں مٹی اور پانی کی اہمیت زراعت کے حوالے سے نہیں بلکہ تعمیرات کے حوالے سے ہوتی ہے۔
سوسائٹی برائے زرعی انجینئرنگ کی وزیر اعلی پنجاب، سیکرٹری اریگیشن اور وزیر آبی وسائل حکومت پنجاب سے استدعا ہے کہ اس حالیہ اشتہار حوالہ www.irrigation.punjab.gov.pk برائے آسامی (ڈائریکٹر جنرل ، ڈائریکٹر پالیسی اینڈ ریسرچ ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر وغیرہ) جن کی آخری تاریخ 28 جنوری 2022 ہے کو فوری طور پر منسوخ کر کے ان آسامیوں پر تقرری کیلئے زرعی اور سول انجینئرز دونوں کو درخواست دینے کی اجازت دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نہ صرف یہ کہ زرعی انجینئرنگ کے شعبہ کے ساتھ ناانصافی ہو گی بلکہ پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔