مری میں جو کچھ ہوا وہ سول حکومت اور ایڈمنسٹریشن کی ہمہ جہت ناکامی تھی، مجھے پنجاب ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے چیئرمین سہیل ظفر چیمہ کہہ رہے تھے کہ اتنی شدید برفباری میں شہریوں کو مری جانا ہی نہیں چاہئے تھاکہ دنیا بھر میں برفباری کے دوران نہ برف کو ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ریسکیو آپریشن شروع ہو سکتا ہے، اس کے لئے برف باری کے طوفان کے رکنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں مگر میرا سوال یہ ہے کہ یہ سب بتانا کس کی ذمے داری تھی کہ یہ ’ویدر ایپس‘ پر نظرآنے والی معمول کی برفباری نہیں بلکہ ایک طوفان ہے۔ دنیا بھر میں ان علاقوں کے لوگ ’ونٹرٹورازم‘ کرتے ہیں جہاں موسم گرم اور خشک ہوتا ہے۔ جب ہم دھند کے دوران موٹر وے بند کر دیتے ہیں تو برفباری کے دوران سڑکیں کیوں بند نہ کی گئیں۔ میرا سوال یہ بھی تھا کہ جو کچھ ہوا وہ سنی بینک سے کلڈانہ اورجھیکاگلی یا کلڈانہ سے باڑیاں کے درمیان ہوا حالانکہ آپ برفباری کی ویڈیوز دیکھیں تو آپ کو ڈونگا گلی اور نتھیا گلی میں کہیں زیادہ برفباری نظر آئے گی مگر وہاں ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوئے۔ فرق صرف لوکل ایڈمنسٹریشن کے جاگنے کا تھا۔ یہ تمام سانحے اس علاقے میں ہوئے جہاں پنجاب حکومت کی عملداری تھی اور جہاں وزیراعلیٰ سے چیف سیکرٹری تک سب مری کی نااہل انتظامیہ کی جھوٹی تعریفوں کے ٹوئیٹ کرنے کے بعد لمبی تان کے سو گئے تھے اورمقامی افسران بھی، وہ اس وقت جاگے جب ماتم برپا ہوا۔
ایک ٹرینڈ پہلے کئی برسوں کی طرح ’ بائیکاٹ مری‘ کا بھی چلا مگر میرے خیال میں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ پنجاب کے کروڑوں افراد کے پاس مری جیسی تفریح کے متبادل مقامات نہیں ہیں۔ سہیل ظفر چیمہ کہہ رہے تھے عوام کو چکوال بھی جانا چاہئے جہاں کی آبشاریں سحر انگیز ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ حکومت کوٹلی سیداں کو بھی مری کے متبادل کے طور پر ڈیویلپ کر نے کا ارادہ رکھتی ہے اوراس علاقے کو ایکسپریس وے پتریاٹہ اور جی ٹی روڈ سے ایک کشادہ سڑک کے ذریعے ملانے کے لئے دو ارب روپے بھی جاری کر دئیے گئے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ڈویلپمنٹ کا کام بہت سست ہوتا ہے ۔ ویسے بھی آپ یہ گارنٹی نہیں دے سکتے کہ مری کے بائیکاٹ کے بعد یہاں یا شمالی علاقہ جات میں رش بڑھے گا تو وہاں انسانیت کا خیال رکھا جائے گا، کرائے نہیں بڑھائے جائیں گے، انسان لالچی ہوجاتا ہے اوراسے صرف قانون کی حکمرانی ہی سیدھے راستے پر رکھ سکتی ہے۔ ایک امریکی بزرگ کسان نے کہا، اس کے ہمسائے بہت ایماندار،ملنسار اور تعاو ن کرنے والے ہیں۔ پوچھنے والے نے ہنس کر پوچھا کہ اگر وہ ایسے ہیں تو تم اپنے فارم ہاؤس کے باہر بندوق لے کر کیوں بیٹھے رہتے ہو۔ اس نے جواب دیا ، انہیں ایماندار، ملنسار اور تعاون کرنے والا رکھنے کے لئے۔
بائیکاٹ مری کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ایک دوسرا ٹرینڈ بھی افسوسناک رہا جب کچھ لوگوں نے پاک فوج کے جوانوں کی تصویریں شیئر کیں جن میں وہ لوگوں کی مدد کر رہے تھے، برف ہٹا رہے تھے یا گاڑیاں نکلوا رہے تھے۔اس امر سے انکا رنہیں کیا جاسکتا کہ جب بھی کسی آفت یا مصیبت میں لوکل ایڈمنسٹریشن ناکام ہوتی ہے توپاک فوج کے جوان ہی مدد کے لئے آتے ہیں ۔یہ دنیا بھر کی افواج کی اپنے شہریوں کے لئے ایک روایت بھی ہے او رضرورت بھی۔ مجھے افسوس اس وقت ہوا جب کچھ لوگوں نے ان واقعات کی ذمے داری ہی غیر ضروری طور پر قومی ادارے پر ڈالنا شروع کر دی گئی کہ ان کے وہاں پردفاتر اور تنصیبات ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ ایسے ٹرینڈز کو کچھ ایسے ٹویپس کی طر ف سے بڑھایا گیا جو مخصوص سیاسی نظریہ رکھتے ہیں اور ایک سیاسی رہنما کو فالو کرتے ہیں یا وہ انہیں فالو ،ری ٹوئیٹ کرتی ہیں۔ میرا سوال تھے کہ جب محکمہ موسمیات نے برفباری کے طوفان کی اطلاع دی تھی توکیا ا س پر انتظامات صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کے بجائے کسی اور ادارے کی ذمے داری تھے۔ کیا مری اور ملحقہ علاقوں میں دو، تین برس سے سڑکوں کی جو مرمت نہیں ہوئی تو اس سے کیا فوج نے روکا تھا۔ کیا مری کی سڑکوں پر ٹریفک پلان فوج نے بنانا تھا۔ کیا شدید برفباری کی اطلاع پر مری میں آمد کے راستے بند کرنا فوج کا کام تھا۔کیا ریسکیو سروسز کو چلانا فوج کی ذمے داری تھی۔ کیا ہوٹلوں کے کرایوں کی مانیٹرنگ فوج نے کرنی تھی۔ کیا بر ف ہٹانے والی مشینری فوج چلاتی ہے۔ کیا ان مشینوںکے ڈرائیوروں کو بروقت طلب کرنا فوج کی ذمے داری تھی۔ کیا فوج نے مری میں پارکنگ کا انتظام کرنا تھا کہ میں کم و بیش بیس پچیس برسوں سے سن رہا ہوں کہ جھیکا گلی پر پارکنگ پلازے بنیں گے اور وہاں سے سیاح شٹل سروس کے ذریعے مال روڈ پر جائیںگے۔ یہ کہا گیا کہ فوج کے تمام دفاتر کو کھول دیا جاتا تو ایساکہنے والے بھول جاتے ہیں کہ ان کے لیڈر کا گھر کشمیر پوائنٹ والی سڑک کے عین اوپر ہے، کیا وہ کھولا گیا تھا؟
جب آپ تجزیہ کاری کی ذمے داری لیتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ اپنے ترازو کو توازن میں رکھیں۔ یہ کہا گیا کہ موجودہ حکومت بھی اسٹیلشمنٹ کی لائی ہوئی ہے توحقیقت تو یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہی آٹھ برس وزیر رہنے کے بعد پیپلزپارٹی کے سربراہ بنے تھے اور نواز شریف کی آمد تو ابھی بہت پرانی کہانی نہیں لگتی کہ وہ سیاست اور اقتدار میں کیسے آئے۔ ہمیں ایشوز کا تجزیہ کرتے ہوئے ایشوز پر ہی رہنا چاہئے۔ حقیقت تویہ ہے کہ سیاستدان اور بیوروکریٹ ستر برس سے زائد مدت میں بطور ادارہ کام کرنے کی اہلیت ہی پیدا نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں اپنی ہر ناکامی کو دوسرے پر تھوپنے کا کام کیا جاتا ہے جیسے چھوٹے صوبوں کی محرومیوں پر جب بات ہو تو پنجاب کو گالی دے دی جاتی ہے۔ یہ اپنی اپنی جگہ ناکامیوں کی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈالنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ ہر فیل ہونے والا بچہ کہتا ہے کہ اس کے استاد نے اسے اچھا نہیں پڑھایا۔ کہنا یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ادارہ اس ماحول میں بھی اچھا او رمثالی ہے تو آپ اسے اپنے جیسا کیوں بنانا چاہتے ہیں، آپ اس جیسے کیوں نہیں ہوجاتے۔ مجھے اسی دوران وائے ڈی اے پنجاب کے سرپرست عاطف مجید کا ایک دلچسپ اور معصومانہ سوال موصول ہوا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پنجاب کا ہر سال تین سو ساٹھ ارب روپے صحت اور چار سو بیالیس ارب روپیہ تعلیم کا بجٹ ہے جو مجموعی طو رپر آٹھ سوارب روپوں سے زائد کی خطیر رقم بنتی ہے۔ اس کا ہر ایک پیسہ چیف سیکرٹری اور ہمارے سویلین حکمرانوں کے ہاتھ سے نکلا ہے، کسی جنرل اور کسی کرنل کے ہاتھ میں ایک ٹکا بھی نہیں ہے مگر کیا ان چار برسوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کوئی بہتری نظر آئی؟ہم کب تک اپنی نااہلیاں دوسروں کے کندھوں پر ڈال کے خود چور دروازے سے نکلتے رہیں گے، یہ ماننا پڑے گا کہ زیادہ تر سویلین مشینری چور اور ہڈ حرام ہے۔ اس کے اندر ویژن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان میں آدھی مدت سیاستدانوں اور آدھی مدت فوجی حکمرانوںکی حکمرانی رہی ہے مگر ان بیوروکریٹوں کے بہتر برس پورے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق آدھے سے زیادہ اعلیٰ بیوروکریٹس دوہری شہریتیں رکھتے ہیں۔
مجھے سینئر صحافی اور پروگرام بیوروکریٹ کے میزبان برادرم ایاز شجاع کی اس بات کو بھی متعلقہ لوگوں تک پہنچانا ہے کہ اگر آپ انکوائری کے نتیجے میں کچھ افسران کو عہدوں سے ہٹا بھی دیتے ہیں تویہ کوئی سزا نہیں ہے۔ وہ ان قتلوں کے باوجود بدستور سرکاری ملازم رہیں گے اورتنخواہیں ، مراعات بھی وصولتے رہیں گے۔ یہ نااہل لوگ چند ہی مہینوں میں کسی نہ کسی عہدے پردوبارہ مسلط بھی ہوجائیں گے۔ ان کا حق ہے کہ انہیں صرف ریموول آف سروس کا اعزاز ہی نہ دیا جائے بلکہ ان قاتلوں پر ایف آئی آر درج کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈالا جائے۔