مری سانحہ کے ذمہ دارکون ہیں ؟حکومتی شخصیات شہریوں قرار دیتی ہیں جنھوں نے کسی حکومتی وارننگ یا ہدایت پر عمل نہیں کیاحالانکہ سانحہ سے ایک روز قبل ہی وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک لاکھ گاڑیوں کے مری داخلے پرخوشی وطمانیت کا اظہار کرتے ہوئے نوید سنائی کہ حکومتی پالیسیوں سے ملک میں سیاحت فروغ پارہی نیزشہریوں کی اتنی بڑی تعدادکا مری پہنچنا مہنگائی کی نفی قرار دیا مزیدتلخ سچ یہ ہے کہ سترہ میل ٹول پلازے کے قریب گاڑیوں کو ابتدا میں روکا گیا جس پر ہوٹل کی صنعت سے وابستہ چند لوگوںنے جانے کیاڈوریاں ہلائیں کہ مری آنے والے راستے کھول دیے گئے اور پھر جس کا جدھر جی چاہا گھس گیا یہاں سے المیے نے جنم لیا شدیدبرفباری سے نا آشنا لوگوں میںبدحواسی پیدا ہوئی اور جلد از جلد نکلنے کی دوڑ سے ٹریفک جام ہو گئی پانچ ہزار کی جگہ ایک لاکھ گاڑیوں کا داخلہ ہی پریشان کُن تھا کہ ایک لائن کی جگہ تین لائنیں بنانے سے ٹریفک بے ہنگم اور راستے بند ہو گئے سڑکوں پر طویل انتظار سے کافی لوگوں کے پاس کھانا ،پانی اور گاڑی کے پیٹرول کا ذخیرہ ختم ہو گیا جن کے پاس پیٹرول تھا انھوں نے سردی کی شدت کم کرنے کے لیے بند گاڑی میں ہیٹر لگالیے جس سے گیس بھرگئی اورامداد کا انتظار کرتے لوگ دم گھٹنے سے موت کی وادی میں چلے گئے پولیس اور ایمبولینس کوپھنسے لوگوں تک پہنچنے میں بندراستوں سے دشواریوں کا سامنا رہاسانحہ کی وجوہات عوام کی لاپروائی، سفر کی ناقص منصوبہ بندی،خطرناک موسم اور حکومتی اِداروں کی ناقص کارکردگی ہے اگر بروقت اور مناسب رہنمائی کی جاتی تو سیاحتی مقام آج یوں بدنام نہ ہوتا انتظامات پر توجہ دینے کے بجائے وزراء کا لوگوں کو مری و دیگر سیاحتی علاقوں کی طرف راغب کرنے کے بیانات دینا مجرمانہ غفلت اور نااہلی ہے یہاں تو ڈھٹائی کا عالم ہے ایسا کسی مہذب ملک میں ہوتا تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی یہاں ایک اور پوچھنے والی بات یہ ہے کہ آفات سے نمٹنے کے لیے بنایا اِدارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی دارالحکومت سے تقریباََ ایک گھنٹے یعنی چالیس یا پینتالیس کلومیٹرکی مسافت پر آبادمری شہرمیں پھنسے شہریوں کی مددکو پہنچنے کی سکت بھی نہیں رکھتا تو کروڑوں اربوں کے فنڈز کِس خوشی میں ضائع کیے جارہے ہیں؟ ۔
مری سانحے کے بظاہر اسباب موسمی ہیں لیکن یہ فرائض سے لا علمی ،نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا بدترین مظاہرہ ہے جس سے موسمی اثرات المناک سانحے اور غیر معمولی حادثے کا باعث بنے حکومت انتظامات کے بغیر ہی ملک کو سیاحت کی جنت بنانے کی دعویدار ہے اسی لیے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب جو ہوا ملک کے دارالحکومت سے تھوڑی دور مری کے راستوں پر ہزاروں لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ جس طرح سردی سے ٹھٹھرتے رات بھر شدید برفافی موسم میں کھلے آسمان تلے بے یارومددگارتڑپتے رہے اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی اشرافیہ نااہل بھی ہے اوربے حس و غیر ذمہ داربھی ۔ ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہونے کی نوید سنانے اور ملک کو سیاحت کی جنت بنانے کے دعویدار برفانی طوفان کے دوران مددتک پہنچانے سے قاصر رہے جب سیاحت کے فروغ کی بات کرتے ہیں تو ضروری
انتظامات کی ذمہ داری پوری کیوںنہیں کرتے؟ سوچیں جو اپنے شہریوں کو سہولتیں فراہم نہیں کرسکتے اگر غیر ملکی بھی آنے لگیں تو زرادل پر ہاتھ رکھ کر بتائیںتو کسی سانحہ کو روکنے یا شدت کم کرنے کے قابل ہوں گے؟ ہمارے ملک میں سیاحت کے وسیع مواقع ہیں بہتی ندیاں،پُرسکون جھیلیں ، ہری بھری وادیاں ہیںسرسبز پیاڑ ہیں صحراہیں پُرانی تہذیبوں کے آثار ہیں مگر راستے انتہائی دشوار گزار اور رہائشی سہولتوں کی کمی ہے مزیدیہ کہ ہمارے اِدارے پیشگی اندازہ لگانے اور مشکل صورتحال میں پھنسے لوگوں کوبچانے کے لیے بروقت حفاظتی اقدامات کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے اِن حالات میں کون خطروں میں کودنے کی حماقت کرسکتا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ سیاحت کی صنعت کو فروغ دیناہے توپہلے آرام دہ سفر،رہائش جیسے مناسب انتظامات پر توجہ دی جائے ۔
مری میں ہر سال ٹریفک جام ہوتی ہے لوگوں کی کثیر تعداد کے لیے رہائشی انتظامات کم اور مہنگے ہونے سے لڑائی جھگڑے اور مارپیٹ کے واقعات روایت سی بن چکی ہے لیکن کبھی مستقل حل تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی راستے بند ہونے سے لوگ گاڑیاں چھوڑ کر پیدل ہی محفوظ مقامات کی طرف چلتے رہے لیکن کوئی سرکاری اِدارہ مدد کو نہ پہنچا مری سانحہ میںبچوں اور نوجوانوں کی لاشیں دیکھ کرپوراملک سوگوار ہے مگر ہمارے حکمران جانے کس مٹی کے ہیں کہ کوئی واقعہ یا سانحہ اُن پر اثر ہی نہیں کرتااب بھی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر ملبہ گرانے کی کوشش میں ہیں پنجاب حکومت نے حقائق کی کھوج کے لیے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا ئی ہے لیکن ایسی کمیٹیاں عام طورپر معاملہ دبانے کی کوشش کرتی ہیں سوال یہ ہے کہ ناقابل تلافی نقصان کے بعد ہی ہیلی کاپٹر اور ریسکیواِدارے کیوں حرکت میں آتے ہیں ہنگامی حالات کے لیے پیشگی انتظامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ پھنسے لوگوں کے لیے مری میں موجود سرکاری رہائش گاہیں بروقت کیوں نہ کھولی جا سکیں کیا شہریوں سے زیادہ چند حکومتی شخصیات ہی اہم ہیں؟ہمارے لبرل لوگ اٹھتے بیٹھتے فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ مری کے برفانی طوفان میں جب دیگرانتظامی اِدارے مفلوج ہو گئے تو فوجی جوانوں نے دنوں کا کام گھنٹوں اور گھنٹوں کا کام منٹوں میں کر تے ہوئے پھنسے لوگوں کو محفوظ مقام تک پہنچایامگر فوج کو بلانے میں کیوں تاخیر کی گئی اِس سوال کا جواب بھی کمیٹی کو تلاش کرنا چاہیے ۔
سیاحت کا فروغ صرف باتوں یا اِرادوں سے نہیں ہوسکتاانتظامات اور سہولتیں فراہم کرنابھی ضروری ہے دنیا بھرمیں سیاحتی مقامات پر ہنگامی حالات کے لیے ٹینٹ ،کمبل اور کھانے پینے کی اشیا کے بیگز رکھے جاتے ہیں مگر ہم الرٹ جاری کرنے کے بعد ہر قسم کی ذمہ داری سے بے نیاز ہوجاتے ہیں حالانکہ مری میں پارکنگ کی جگہ نہیں تو بس ٹرانسپورٹ دیکر نہ صرف حکومتی آمدن میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ پارکنگ کے مسائل بھی مستقل طور پر حل کیے جا سکتے ہیں تین بیٹیوں، ایک بیٹے، بہن، بھانجی اور بھتیجے کے ساتھ جاںبحق ہونے والے پولیس آفیسرنویداقبال کے آخری وائس میسج سے حکومتی بے حسی،لاپروائی ،سستی اور بے تدبیری کا پردہ چاک ہوتا ہے جس میں وہ اپنے ساتھی سے کہتاہے کہ ہم اٹھارہ گھنٹے سے پھنسے ہیں پتہ کرکے بتائو کرین آئی ہے کہ نہیں اور ہمیںمزید کتنے گھنٹے انتظار کرنا پڑے گامرحوم کے کزن نے عمران خان ،فواد چوہدری اور شیخ رشید کے ذاتی واٹس ایپ نمبروں پر پیغامات بھیجے مگر کسی نے جواب نہ دیا شیخ رشید نے بھی پریس ریلیز جاری کرنے پر اکتفا کیاانتظامیہ کو لوکیشن بھی بھیجی مگر جواب میں اطمینان دلانے اور مدد پہنچنے کا لالی پاپ ہی ملا چار نوجوان زندگی کی آخری سیلفی دوستوں اور اہلِ خانہ کو بھیجنے کے بعدگاڑی میں ہی چل بسے جب قیمتی جانی نقصان ہو گیا توشیخ رشید مری جاکر ہاتھ کے اشارے سے گاڑیوںکو راستہ بتانے پہنچ گئے صاف ظاہر ہے یہ شہرت کے بھوکے لوگ مجرمانہ غفلت کے بعداب قوم کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعہ کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں اور پھر کوئی چھوٹا اہلکار ہو یا بڑا آفیسرجوبھی ذمہ دار ہو ایک بار کسی کوکڑی سزا دے لیں مجھے امید ہے کہ آئندہ غفلت کے امکانات کم ہو جائیں گے اگر19 جنوری 2019سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو قطر کے دورے سے واپسی پر سزائیں دلانے، 8جنوری 2021کے سانحہ کوئٹہ میںمرنے والوں کے لواحقین کے دھرنے سے بلیک میل نہ ہونے جیسا رویہ ہی رکھنا ہے تو سانحہ مری کے لوگوں کو غیر ذمہ دارکہنا ہی درست ہے جو موسم کا اندازہ لگائے بغیر ہی مری جاپہنچے اور حکومتی ہدایات پر عمل نہ کرنے کی بنا پر موت کی وادی میں چلے گئے ۔