٭… قیامت سے پہلے قیامت…؟
٭… آج مجھے کالم لکھنا زندگی کا مشکل ترین کام لگا۔ صبح سے شام ہونے کو ہے، کئی بار کوشش کی، ہر بار یونہی محسوس ہوا جیسے انسانی لہو سے اَٹا ہر لفظ چمکتے ہوئے میرے ضمیر کو چاٹنے لگا ہے۔ وہ بھی اس قدر کہ جیسے میں اور میرا قلم بے ضمیر ہو گئے ہوں۔ اسی سوچ کی محویت میں دن گزرا، کیا لکھوں، کیسے لکھوں؟ غم کے پہاڑ کو لغت کے کن الفاظ میں بیان کروں کہ کچھ تو میرے جذبات کا اظہار ہو سکے۔ لیکن جس طرح کسی ہولناک جنگ میں کسی سپاہی کو محاذ پر جانے سے پہلے تیار کیا جاتا ہے مجھے بھی خود کو تیار کرنا پڑا۔ کیونکہ سانحہ مری میں جو ہوا وہ ایسے تھا جیسے دنیا کی دردناک ترین فلم کے مناظر فلمائے گئے ہوں۔ اتنے خوفناک مناظر کہ بار بار ٹی وی بند کر کے دیکھے؟ معززقارئین،میرا تمام صحافتی مشن گواہ ہے کہ میں ہمیشہ پارلیمنٹ سے پٹوار خانے تک بالخصوص بیوروکریسی اور انتظامی افسران کے حق میں بے خوف لڑا ہوں اور ہمیشہ اگلے مورچوں پہ تن کے کھڑا رہا ہوں۔ کیونکہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ قوم خون جگر پلاتی ہے تو ادارے پروان چڑھتے ہیں۔ قوم آدھی روٹی کھاتی ہے تو ان کے افسر پلتے ہیں لہٰذا ان کی تضحیک نہیں ہونی چاہئے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ہمارے چند سیاستدان اور ان اداروں کے چند افسران اپنی بے لگام خواہشات کے لئے باعزت نہیں کہلاتے ہیں۔ چور، ڈکیت بنتے ہیں بلکہ شہیدوں کی قبروں کے مجاور بھی بن جاتے ہیں لیکن اس وقت بات ہو رہی ہے وہ معصوم افراد جو محض تفریح یا بے تحاشا مسائل سے چند ثانیئے فرار کے لئے اپنے گھروں سے نکلے اور برف میں پھنسے اور دھنسے مدد کو پکارتے، بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے نہ جانے کون سی جنت کی سیروتفریح کو نکل گئے ، کتنے آنسو بہائوں، کتنا روئوں، کتنا خود کو پیٹوں کہ کچھ تو قرار آئے۔ اگرچہ اس وقت سامنے ٹی وی سکرین پر حکومتی وزراء اور اپوزیشن کے سیاسی رہنما اپنا اپنا سچ بول رہے ہیں۔ لیکن سچ یہی ہے کہ یہ المناک سانحہ انتظامی غفلت کا نتیجہ ہے؟ جس کی جس قدر جلد انکوائری مکمل ہو اور غفلت برتنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے، بہتر ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ ورنہ لوگ کہیں گے کہ تحریک انصاف نے اس دردناک سانحہ میں بھی انصاف نہیں کیا۔؟ ویسے بھی ہم مسلمان ہیں اور اس دین کے داعی ہیں جو پکار پکار کر کہتا ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جس نے ایک جان بچائی۔ اس نے پوری انسانیت بچائی۔ ہم نے تو اپنے 23 معصوم فرشتے مار دیئے ہیں۔ روزِ حساب اس کا حساب کون دے گا ؟ضرور سوچئے گا۔ خدارا اپنی بے حسی کی چادر سے منہ باہر نکال کر ضرور سوچئے گا۔ کسی شاعر نے شاید اس واقعہ پے کہا تھا
موت برحق ہے، مگر گزارش یہ ہے!
کہ زندہ انسانوں کا نہ جنازہ اٹھایا جائے!
………………
٭…پی پی ن لیگ حکومت کے خلاف متحد…٭
٭… درحقیقت آپ کو میری رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ آپ اس کا حق بھی رکھتے ہیں اور میں اپنے چند کالم نگار دوستوں کے اختلاف کا احترام بھی کرتا ہوں مگر میری رائے یہی ہے کہ جس طرح پاک فوج سے محبت دھرتی ماں سے محبت کے مساوی ہے۔ میری اس انتہا کی محبت کی بدولت چند صحافی دوست طرح طرح کے الزام بھی دھرتے ہیں۔ مگر میں مسکرا کر ان کی دل آزاری نہیں کرتا ہوں۔ ایسے ہی میری رائے میں ن لیگ اور پی پی ’’ایک سر کے دو دھڑ‘‘ دکھائی تو دے سکتے ہیں مگر ان کے دل ایک دوسرے کے لئے دھڑک نہیں سکتے؟ یہ عوام کو دھوکے کے لئے یا حکومت کے خلاف منہ دکھائی کے طور پر کچھ نہ کچھ سیاسی ڈرامہ تو رچا سکتے ہیں مگر صاف سچے کھرے نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ان دونوں جماعتوں کی محبت عوام کا وقار نہیں بلکہ عوام پے اقتدار یعنی کرسی ہے۔ اس لئے یہ دونوں ایک دوسرے کو بلکہ عوام کو بھی خوبصورت دھوکے دے رہے ہیں لیکن دونوں جماعتوں میں سے جناب بلاول بھٹو اپنے سیاسی کارڈ کمال مہارت سے کھیل رہے ہیں اور کامیابیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ رہی بے چاری ن لیگ تو وہ اس قدر مسائل کی ماری ہے کہ ان کی کوئی سازشی گیم بھی انہیں کوئی خوشی فراہم نہیں کر پا رہی۔ البتہ جناب شہباز شریف کچھ نہ کچھ سیاسی ماحول گرماتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو اپنی میٹھی میٹھی باتیں یا ایسی باتیں جو ان کے کانوں کو بھلی لگیں، سناتے ہیں۔ مگر یکایک ہی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ جاتی ہے۔ لہٰذا دونوں جماعتوں یا اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا اتحاد بے وقت کی راگنی ہے اور وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے؟ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت خراٹے بھرنے لگے۔ اسے کچھ نہ کچھ اب سوچنا ہو گا۔ کم از کم یہی سوچ لیں کہ دنیا کے کئی ممالک صرف سیاحت سے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ دنیا بھر سے لوگ بھاگم بھاگ وہاں جاتے ہیں جبکہ ہم اپنے ملکی سیاحوں کو بھی سنبھال نہ پائے۔ لہٰذا گڈگورننس تو کیا، ہمارے ہاں تو بیڈگورننس نام کی بھی کوئی چیز نہیں ہے جس کی بنیادی وجہ ہمارے پاس کوئی متحرک ٹیم ہے نہ ماسٹر پلان نہ حکمت سے بھرپور حکمت عملی ہے۔ حالانکہ ہم اب بھی جمہوری تماشا بند کر کے پسند اور ناپسند کو ترک کر کے تازہ دم میرٹ پے مبنی افسران لگا کر انقلاب برپا کر سکتے ہیں ، حکومتی امیج بحال ہو سکتا ہے ورنہ کسی سرپھرے شاعر نے کہا تھا ۔
نہ انجن کی خوبی، نہ کمالِ ڈرائیور
چلے جا رہی ہے، خدا کے سہارے
………………
٭… دہشت گرد ہلاک…؟
٭… پاکستان کو انتہائی مطلوب کالعدم تحریک طالبان کا مرکزی دہشت گرد محمد خراسانی افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ہلاک ہو گیا۔ اگرچہ اس واقعہ کے متعلق عالمی سطح پہ یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں کیوں تھا۔ مگر پاکستان کا سوال صرف یہ ہے کہ وہ جہاں بھی تھا پاکستان امن دشمن تھا۔ اس لئے ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ وہ مارا گیا کیونکہ آپ کو یاد ہو گا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دور میں ان گنت افغانیوں اور پاکستان کے معصوم بے گناہ شہریوں کو قتل کیا گیا جبکہ اس کی اس قدر دہشت تھی کہ کوئی لب بھی نہیں کھولتا تھا۔ ویسے میری ذاتی خواہش ہے کہ اس کی موت کی تصدیق طالبان حکومت کو کرنا چاہئے۔؟ زندہ باد! پاکستان زندہ باد!
………………
٭… خالصان کا نقشہ جاری…؟
٭… بھارت سے آزادی کے لئے برطانوی ریفرنڈم کے بعد سکھ فار جسٹس نے خالصتان کا حتمی نقشہ جاری کر دیا ہے جس میں پنجاب کے ساتھ ساتھ ہریانہ اور ہماچل کو بھی خالصتان میں شامل کر لیا گیا ہے۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کل تقسیم ہند سے پاکستان آزاد ہوا تھا۔ اب عنقریب خالصتان آزاد ہو گا۔