اسلام آباد سے شہباز مظفر لکھتے ہیں، عارفوں اور داناؤں نے غم کی بڑی فضیلت بیان کی ہے، حضرت واصف علی واصفؒ نے بھی لکھا ہے کہ اللہ کے محبوبوں کی خوراک غم ہے، اللہ جسے اپنے نزدیک کرنا چاہتا ہے اسے غم کی دولت دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غم تو دکھ درد ہوتا ہے، اللہ آخر اپنے محبوبوں کو درد میں کیوں رکھتا ہے؟ ہم انسان تو جسے پسند کرتے ہیں اس کے آرام و آسائش کا خیال کرتے ہیں، اسے ناز و نعم میں رکھنا پسند کرتے، یہ فارمولہ معرفت کے میدان میں الٹ کیوں ہو جاتا ہے؟
سوال انتہائی اہم ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ روح کے تقاضے جسم کے تقاضوں کے الٹ کیوں ہوتے ہیں۔ جسم کا تقاضا ہے کہ کھاؤ پیو، آرام سے پاؤں پسارو، جسمانی جبلت چاہتی ہے کہ لذاتِ وجود میں منہمک رہا جائے۔ اس کے برعکس روح کا تقاضا کچھ اور ہے، روح چاہتی ہے کہ شکم کو بھوکا رکھو، جگر کو پیاس سے روشناس کراؤ، وجود کو مشقت و ریاضت سے گزارو، لذاتِ حواسِ خمسہ سے گریز کرو۔ جسم عالمِ خلق کی پروڈکٹ ہے اور روح عالمِ امر سے نزول کرنے والی ایک حقیقت۔ خلق اور امر ایک دوسرے کا الٹ ہیں۔ جسم دیرپا نہیں، یہ آغاز اور انجام کے درمیان معلق ہے۔ روح کو ایک کنارے کا سمندر کہا گیا ہے، روح کا آغاز ہے، انجام نہیں۔ روح قدیم تو نہیں لیکن قدیم سے قریب ترین ضرور ہے۔ انسان کا عالمِ آب و گل میں اس پیکرِ خاکی کی سواری کا ساتھ چند عشروں تک محدود ہے۔ روح کا ساتھ جسم کے مقابلے میں بے حد طویل ہے، روح تقریباً لامتناہی وقتوں تک ساتھ دیتی ہے۔
اللہ اپنے بندوں پر رحیم و شفیق ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے ساتھ عارضی تعلق نہ رکھے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کا تعلق قائم کرے۔ اس لیے ترجیحات کے باب میں اسے اپنے بندے کی روحانی بالیدگی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ جسم ایک دنیائے کثیف کی داستان ہے، روح لطافت کی وادی ہے۔ جسم کثافت سے پُر ہے، روح لطافت کا پیکر ہے۔ اللہ لطیف ہے، وہ لطافت کو پسند کرتا ہے۔ اللہ جمیل ہے وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔ کوئی جمال جب تک روح کا جلوہ لیے ہوئے نہ ہو گا، قابلِ کشش نہ ہو گا۔ جسم کی کشش کا عارضہ عارضی ہوتا ہے، روح کی قوت جاذبہ مستقل ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے!! جسم فانی ہے، روح لافانی۔ روح کا روح سے تعلق قائم ہو جائے تو اس تعلق کو موت بھی شکست نہیں دے سکتی۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے اپنے ایک مضمون ’’محبت‘‘ میں
ایک عجب لافانی فقرہ تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں ’’محبت دو روحوں کی نہ ختم ہونے والی باہمی پروازہے‘‘۔
ہمارے خالق و مالک کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ ستر ماؤں سے زیادہ شفیق ہے۔ ماں کی محبت انسانی فہم میں ایک ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ ماں کے بارے میں یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی تکلیف میں دیکھے، لیکن یہی ماں اپنے بچے کی بہتری کے لیے اسے انجیکشن لگواتی ہے، وہ جانتی ہے کہ حفاظتی ٹیکوں سے بخار ہو جاتا ہے لیکن وہ خود جا کر بچے کو ٹیکہ لگواتی ہے، بسا اوقات وہ بچے کا آپریشن تک کرا دیتی ہے، یعنی اپنے معصوم بچے کا پیٹ بھی کھلوا دیتی ہے۔ کم فہم اور لاتعلق مخلوق یہی گمان کرے گی کہ ماں کو بچے پر ذرا ترس نہیں آتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ضد کرتا ہے، چاقو اور دیا سلائی سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے، ماں فرطِ محبت میں اس کے رخسار پر ایک طمانچہ رسید کرتی ہے، اور اپنے لختِ جگر سے اس کے دل پسند کھلونے چھین کر کسی ایسی جگہ چھپا دیتی ہے جو اس کی دسترس سے باہر ہو۔ بچہ دن چڑھے دیر تک سونا چاہتا ہے، اپنے بہن بھائیوں کے درمیان ’’خوش و خرم‘‘ رہنا چاہتا ہے لیکن ماں ہر روز اس پر یہ عجیب ’’ظلم‘‘ ڈھاتی ہے کہ صبح سویرے اسے نرم گرم بستر سے اپنے پہلو سے جدا کر دیتی ہے، روتے ہوئے بچے کا ہاتھ منہ دُھلا کر بستہ اس کے ہاتھ میں دیتی ہے اور خود اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔ بچہ گھر سے باہر جانے پر راضی نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے لاڈلے کی ایک نہیں سنتی۔ یہ روز مرہ ڈسپلن سکھانے کے لیے اگر اسے چپت بھی رسید کرنا پڑے تو بے دریغ یہ دھول دھپا بھی کر گزرتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اسے جانور سے انسان بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے اس کی مرضی کی زندگی نہ گزارنے دی جائے، اسے اس کی من چاہی طرزِ زندگی سے دور رکھنا ضروری ہے۔ بچے ایسا شعور رکھنے والے اس عمل کو یقیناً محبت کے منافی تصور کریں گے لیکن ماں کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بچے سے اس کی مرضی چھین لے اور اس پر اپنی مرضی مسلط کر دے۔ یہاں غم کی ایک تعریف بھی سمجھ میں آتی ہے، مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’اللہ کی مرضی اور بندے کی مرضی کے درمیان فرق کا نام غم ہے‘‘۔
باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشادِ گرامی ہے ’’من عرفت ربی بفسخ العزائم‘‘ (میں نے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا)۔ گویا وہ شخص جسے معرفت کے سفر کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے اس کے ارادے قدم قدم پر ٹوٹیں گے، جب اس پر اپنے ارادے کا پردہ چاک ہو گا تو حجاب اٹھے گا اور وہ اپنے رب کے ارادے کو پہچان پائے گا۔ رب کے ارادے کو پہچاننا رب کی مشیت کو پہچاننا ہے۔ معرفت مشیت آشنائی ہی تو ہے۔ مرشد نے تصوف کی ایک تعریف یہ بھی کی ’’تصوف دراصل اپنی زندگی میں اللہ کے عمل کو دریافت کرنا ہے، یعنی جب ہم اپنی زندگی میں اپنی مرضی کا عمل چھوڑ دیتے ہیں تو ہم پر اس کا ارادہ اور عمل منکشف ہوتا ہے۔
غم کبھی مصنوعی نہیں ہوتا، خوشی میں تصنع ہو سکتا ہے، دکھاوا ہو سکتا ہے۔ خوشی انسان کو باہر کی دنیا سے متعارف کراتی ہے اور غم اسے اندر کی دنیا کی راہ دکھاتا ہے، اور یہی اندر کی دنیا دراصل حقیقی دنیا ہے۔ انسان کو رب اپنے اندر دریافت ہوتا ہے۔ ظاہر جلوۂ صفات ہے، باطن خلوت کدۂ ذات ہے!! غم انسان کو اپنے آپ سے متعارف کراتا ہے۔ جسے اپنا تعارف میسر آ گیا اسے اپنے رب کی معرفت کا راستہ مل گیا۔ مسکراہٹ، ہنسی، قہقہہ سب نقلی ہو سکتے ہیں، لیکن غم ہمیشہ اصلی ہوتا ہے، اشیا کی اصل تک لے جاتا ہے۔ غم میں انسان خود کو بھی پہچان لیتا اور اپنے ارد گرد انسانوں کو بھی جان لیتا ہے۔ خوشی میں شریک یاد نہیں رہتے، غم کے شریک یاد کا حصہ بن جاتے ہیں۔ غم کے جہان میں سب سے بڑا غم غمِ جاناں ہوتا ہے۔ غمِ جاناں غمِ دوراں بھلا دیتا ہے۔ بہرطور غمِ جاناں ہو یا غمِ دوراں داستانِ غم اپنے محبوب کی مرضی سے عدم رضا کا باب ہوتا ہے۔ دل میں درد ہو یا پیٹ میں درد ہو، آنسو ایک جسیے ہوتے ہیں۔۔۔۔ اور آنسو وہ موتی ہے جسے شانِ کریمی خود چن لیتی ہے۔ اب اس میں راز یہ ہے کہ اللہ کے چنیدہ بندے اس کی مرضی پر لبیک کہتے ہیں، عدم موافقت کو درمیان سے اٹھا دیتے ہیں اور یوں غم سے نجات کا مژدہ پاتے ہیں۔ بات تعلق کی ہے، تعلق قائم ہو تو غم غم نہیں رہتا۔ دوست سے موصول ہونے والا ہر پیغام پیغامِ محبت ہی سمجھا جاتا ہے۔
ہے بات تعلق کی، تعلق ہو تو واصف
مائل بہ کرم ہوں یا ستم، ان کا کرم ہے
ربِ ذوالجلال اپنے کلام میں فرماتا ہے ’’اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟‘‘ رونا پسند کیا گیا ہے، خاموش آنسو کی قیمت کسی کھنکتے ہوئے قہقہے سے زیادہ ہے۔ حدیثِ مبارک ہے ’’زیادہ نہ ہنسا کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے‘‘۔
ہنسنی غفلت ہے، غم بیداری ہے۔ غم دل کی غذا ہے۔ اس سے منہ نہیں موڑنا نہیں چاہیے۔ غم خود شناسی کا ایک راستہ ہے۔ غم غفلت سے نجات دینے کا ذریعہ ہے۔ مرشد فرمایا کرتے کہ غم فقیر بنانے والا ایک ایمرجنسی کمیشن ہے، کہا جاتا ہے، بھئی یہ بندہ زیادہ عبادت نہیں کر سکتا، اسے ہم نے فقیری عطا کرنی ہے، چلو اسے فوری طور پر غم سے گزار دو۔ دراصل اللہ کریم اپنے بندوں کو غم سے نہیں گزارتا بلکہ آزمائش سے گزارتا ہے اور آزمائش رب کا اپنے بندوں کو انعام عطا کے ایک جواز کا نام ہے‘‘۔