اسلام آباد:پاناما کیس میں عدالتی بینچ کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے بیانات میں تضاد ہے،وزیر اعظم نے خود کہاتھا کہ ان کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے تاہم اس کتاب کے کچھ صفحات غائب ہیں۔
وزیر اعظم نے سچ بولا یا انکے بیٹے نے؟ اگر ایک نے سچ بولا تو دوسرے کا بیان سچ نہیں ہو گا
اگر وزیراعظم نے پورا سچ نہیں بولا تو کیا یہ غلط بیانی نہیں ہوگی، جبکہ وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل نے کوئی غلط بیانی نے نہیں کی عوام کے منتخب نمائندے کو نااہل قرار دینامعمولی بات نہیں،وزیراعظم کے وکیل کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
پاناما کیس کی سماعت آج بھی ہوئی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں دبئی فیکٹری کااعتراف کیا ۔ انہوں نے وزیراعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس اعتراف کے بعد بار ثبوت بھی آپ پر ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ آپ کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، بادی النظر میں نواز شریف کی پیش کردہ دستاویزات واضح نہیں ،جسٹس گلزار نے سوال اٹھایا کہ کیا دبئی فیکٹری کا وجوو تھا بھی نہیں۔وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کے روبرو اپنے موکل کا قوم سے خطاب پڑھ کرسنایا۔انہوں نے دلائل دیئے کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب کہا تھا کہ جدہ فیکٹری کا سرمایہ بچوں نے کاروبار کے لیے استعمال کیا،بچوں سے متعلق کاروبار شروع کرنے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف دبئی فیکٹری کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے ،پی ٹی آئی کی درخواست اور دلائل میں تضاد ہے، ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے تو تحائف کے معاملے پر بھی وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کا کہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم اپنے والد کی رقم استعمال کر سکتے ہیں،لیکن ذمہ دار دونوں کے نہیں، فواد چوہدری
درخواست گزار کے مطابق نواز شریف آرٹیکل 62 کے تحت ناہل ہو گئے جبکہ آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی پر کسی عدالتی فورم کا فیصلہ ہونا ضروری ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ دبئی فیکٹری کے لیے رقم دبئی کیسے گئی ،انہوں نے وزیر اعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے موکل نے اپنے خطاب میں دبئی میں فیکٹری لگانے کا اعتراف کیا ،اس اعتراف کے بعد بارثبوت بھی آپ پر ہے،یہ بھی بتانا ہوگا کہ لندن جائیدادیں وزیر اعظم کے بچوں کی ہیں یا کسی اور کی ،بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس حوالے سے آپ کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا ،نواز شریف کی وضاحت سے معاملہ کلیئر نہیں ہوتا جبکہ جسٹس گلزار احمد نے سوال اٹھایا کہ کیا دبئی مل کا کوئی وجود تھا بھی یا نہیں؟؟؟
یہ خبربھی پڑھیں: عمران خان جھوٹ ،الزامات اور احتجاجی سیاست کے بادشاہ ہیں،مریم اورنگزیب،طلال چودھری