آئی ایم ایف کی رواں سال کی کنٹری رپورٹ میں پاکستان کی بیورو کریسی کو بزنس کے فروغ میں رکاوٹ کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں پر اتنے قاعدے ، قوانین اور ضابطے ہیں کہ آپ پڑھ پڑھ کر پاگل ہو جائیں گے۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ ایک ریاست جتنی بدعنوان ہوتی ہے وہاں اتنے ہی زیادہ قوانین ہوتے ہیں۔ ہماری بیور وکریسی جس میں عدالتی بیورو کریسی بھی شامل ہے پاکستان کے سسٹم کی بہت سی خرابیوں کی ذمہ داری ہے۔
فیصل واوڈا کے کیس میں اس بات کا تعین کرنے پر ساڑھے بائیس ماہ خرچ ہو گئے کہ انہوں نے بطور امیدوار جو حلف نامہ جمع کروایا تھا ، وہ جھوٹ ثابت ہو گیا ہے۔ فیصلہ ہوتے ہوتے فیصل واوڈا پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی نشست چھور کر ایوان بالا کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے ان کا خیال تھا کہ ایم این اے کی سیٹ خالی کر کے وہ اپنے خلاف کارروائی سے بچ جائیں گے۔ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا جس میں کوئی بہت زیادہ عدالتوں اور وکالتوں کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے اتنی تاخیر کر دی کہ انصاف ہونا نہ ہونا برابر ہو گیا۔ اگر اس کی مزید تہہ میں جائیں تو الیکشن کمیشن کے یہ فیصلہ صادر کرنے کی ایسی وجوہات دستیاب ہو سکتی ہیں جس میں ان کی دلچسپی کا دخل ہے اگر انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہوتے تو یہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا ہوتا۔
یاد رہے کہ فیصل واوڈا کی تاحیات نا اہلی آئین کی اسی دفعات کے تحت ہے جس میں وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ یہ وہی دفعات ہیں جو نواز شریف اور جہانگیر ترین پر بھی لگائی گئیں اور فیصل واوڈا کے پارٹی لیڈر عمران خان نے نواز شریف کیس میں اس کا خیر مقدم کیا مگر فیصل واوڈا کے کیس میں انہیں پارٹی سربراہ کی طرف سے مکمل تحفظ دیا جاتا رہا اور دروغ حلفی کے باوجود پارٹی نے فیصل واوڈا کو سینٹ کا ٹکٹ جاری کیا۔ اس سے پاکستان تحریک انصاف کی اخلاقی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا۔
حلف اٹھا کر جھوٹ بولنا ایک سنگین جرم ہے جس کی پاکستان کے مجموعہ تعزیرات میں 3 سال تک سزا ہے مگر الیکشن کمیشن نے انہیں جیل بھیجنے کے سفارش نہیں کی یعنی ملزم سزا سے صاف بچ گیا۔ نہ صرف بچ گیا بلکہ اس کو اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے تا کہ وہ کم از کم اگلے انتخابات تک عدالتوں کا مزید وقت ضائع کرے اور اپنے جھوٹ کا دفاع جاری رکھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان جیسا ’’مسٹر کلین‘‘ لیڈر ایک غلط اور قسم اٹھا کر جھوٹ بولنے یا جھوٹا قرآن اٹھانے کے باوجود فیصل واوڈا کی اتنی اندھی حمایت کیوں کر رہا ہے تو اس کا جواب ذرا لمبا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں کولمبیا اور میکسیکو کے طرز پر کارٹل یا اجارہ داری کا نظام ہے۔ عمران خان 1996ء میں سیاست میں آئے تو کئی سال کی ناکامی کے بعد اس نے دیکھا کہ یہاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اجارہ داری اتنی مضبوط ہے کہ ان کے مقابلے میں اگر وہ عمر بھر بھی لگے رہے تو کامیاب نہیں ہوں گے جبکہ ان کی نظر وزیراعظم کی کرسی پر تھی وہ خود شروع میں کہا کرتے تھے کہ اگر میں 25،30 سیٹیں لے کر جیت بھی گیا تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں نظام کو تبدیل نہیں کر سکوں گا۔ یہ الگ بات کہ اس دفعہ انہیں صرف ایک سیٹ ملی۔ 2011ء تک ان کو یہ واضح ہو چکا تھا کہ جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق اس وقت تک وزیراعظم نہیں بن سکتے جب تک وہ بھی اسی طرح کا اجارہ داری کا نظام قائم نہ کریں جو ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے قائم کر رکھا ہے جن کے پاس ملک کے تمام بڑے بڑے سرمایہ دار اور جاگیر دار اکٹھے تھے۔
اس موقع پر عمران خان نے بریک تھرو یہ کیا کہ super rich یا امراء کا ایک ایسا طبقہ ڈھونڈ لیا جو سیاست میں اپنا حصہ کلیم کرنے کے لیے بے چین تھے مگر دو بڑی پارٹیاں انہیں گھاس ڈالنے پر آمادہ نہ تھیں جب انہیں عمران خان کی شکل میں ایک تھرڈ آپشن نظر آیا تو انہوں نے اپنا سارا وزن اس کے پلڑے میں ڈال کر اس کو ان دونوں کے برابر کھڑا کر دیا۔ یہ کون لوگ تھے ان میں سے چند ایک ایسے ہیں جن کو آپ سب جانتے ہیں فیصل واوڈا ان لوگوں میں سے ایک ہے جو تحریک انصاف کے ابتدائی فنانسر تھے جن میں جہانگیر ترین علیم خان زلفی بخاری اور بہت سے نام شامل ہیں جن کی انوسٹمنٹ سے تحریک انصاف ایک برانڈ بن کر ابھری اور چھا گئی۔ جس کے بعد ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ناراض ارکان بھی اس میں شامل ہو گئے۔
تحریک انصاف کی سیاست ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے ذرا بھی مختلف نہیں ہے۔ 2017ء میں عمران خان نواز شریف کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ جب ہم انہیں کہتے ہیں کہ تلاشی دو تو یہ فیتے کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف نے اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھالنے کے لیے فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان کو بطور برانڈ پیش کر کے پارٹی کو بچایا جائے جس کے لیے ملک کے طول و عرض میں عمران خان کے جلسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ اب عوام کہتی ہے مہنگائی کم کرو مگر وزیراعظم کہتے ہیں کہ مجھے دیکھو میں کتنا مقبول ہوں ۔ میرے جلسے میں لاکھوں لوگ آتے ہیں یعنی یہ وہی ’’فیتہ کاٹ‘‘ مہم ہے جس پر وہ اعتراض کیا کرتے تھے۔
عمران خان کی moral stauding تب ہوتی اگر وہ بطور ایم این اے فیصل واوڈا سے استعفیٰ لیتے اور انہیں پارٹی سے سبکدوش کر دیتے مگر وہ تو ابھی تک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ غلط بندے کو پارٹی ٹکٹ دینے پر سیاسی پارٹی کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے خواہ اس کے لیے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
مجموعہ تعزیرات پاکستان میں کچھ دفعات کی حیثیت صرف ڈیکوریشن پیس کی ہے جس میں دروغ حلفی بھی شامل ہے۔ جس پر آج تک کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر فیصل واوڈا کا جرم ثابت ہونے پر انہیں جیل بھیجا جائے تاکہ آئندہ سیاستدان اپنے کاغذات نامزدگی پیش کرتے وقت غلط معلومات یا قسم اٹھا کر جھوٹ نہ بولیں۔
دروغ حلفی سنگین جرم مگر سزا ندارد
09:00 AM, 12 Feb, 2022