سقوط ڈھاکہ کے بعد عسکری اور سویلین قیادت سکتے میں تھی، اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ مشرقی پاکستان اس طرح جدا ہو جائے گا،جنرل ایوب جب اقتدار اپنے پیشرو کو منتقل کر رہے تھے تو ان کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اسکی بھاری قیمت قوم کو ادا کرنا پڑے گی، بھٹو ہر قیمت پر ملک کو ایٹمی طاقت بنانا چاہتے تھے، ملک میں اٹامک انرجی کمیشن موجود تھا، لیکن انکی نگاہ اس نوجوان پر پڑی جو کرسمس کی چھٹیاں منانے اپنی فیملی کے ساتھ کراچی آیا ہوا تھا، بھٹو کی بے تابی بے سبب نہ تھی کیونکہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد انڈیا نے ایٹمی دھماکہ بھی کردیا تھا،مسٹر بھٹو نے پہلی ملاقات میں ڈاکٹر قدیر سے درخواست کی کہ آپ واپس نہ جائیں، ڈاکٹر قدیر خاں کے لئے یہ آفر غیر متوقع تھی۔ ڈاکٹر خاں نے صرف اپنی اہلیہ سے مشورہ کی مہلت مانگی، بیگم نے سوال کیا اگر تم یہاں رک جاتے ہو تو کیا ملک کے لئے کوئی اہم کام کر سکتے ہو، ڈاکٹر قدیر نے جواب دیا حقیقت یہ ہے میرے علاوہ کوئی یہ کام نہیں کر سکتا یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے، انکی اہلیہ نے کہا ٹھیک ہے ہم رک جاتے ہیں اس فیملی نے یہ پہلی قربانی دی۔
31 جولائی1976 کو ذوالفقار بھٹو نے یورینیم کی افزودگی کے پر اجیکٹ کی منظوری دی،ڈاکٹر مرحوم اس کے سربراہ مقرر ہوئے، جاپان پر امریکہ کی طر ف سے ایٹم بم گرائے جانے کے بعد اٹیمی ہتھیار حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی،امریکہ، روس ،کینیڈا ایٹمی ری ایکٹر بنانے میں کامیاب ہوگئے،اس کے بعد پوری دنیا میں پر امن استعمال کی مہم شروع ہوگئی نتیجہ کے طور پر اٹیمی عدم پھیلائو کا معاہدہ وجودد میں آگیا جس پر130 ممالک نے دستخط کئے،اسکی نوعیت بھی خاصی امتیازی تھی جن کے پاس یہ ہتھیار نہیں وہ نہ بنائیں ،اس پر عمل درآمدسے پہلے چین آخری ملک تھا جس نے1964 میں دھماکہ کیا، بعد ازاں انڈیا نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے د ھماکے کئے، اس کا نزلہ پاکستان پر گرا،کینیڈا نے کراچی کے نیوکلیر پلانٹ کا ایندھن روک دیا، فرانس نے بین الاقوامی معاہدہ کے باوجود ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔
پاکستان دنیا کی مشکل ترین ٹیکنالوجی میں
مہارت حاصل کرنے چلا تھا، ا س کے باوجود منیراحمد خان جو اٹامک کمیشن کے سربراہ تھے ہر میٹنگ میں یہی کہتے کہ ہمیں ایٹم نہیں بنانا چاہئے۔ ڈاکٹر قدیر اپنی خود نوشت ’’عزم داستان‘‘ میں رقم کرتے ہیں کہ کہوٹہ پروجیکٹ کا سربراہ بننے کے بعد میری ترجیح مناسب جگہ کا انتخاب تھا، میٹنگ جس میں بھٹو مرحوم، اسحاق خاں ،اے جی این قاضی، آغا شاہی موجود تھے ،ذوالفقار بھٹو کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ جگہ کا انتخاب کر لیا ہے،غلام اسحاق نے کہا سر کمیٹی بنا دیتے ہیں جگہ کے معائنہ کے لئے بھٹو نے مسکرا کر خان کی طرف یکھا اور کہا کہ اس ملک کو کمیٹیوں نے تباہ کیا ہے، مجھے انکا فیصلہ قبول ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد ایٹمی پروگرام کو اولین ترجیح دینا شروع کر دی۔1979 کے وسط میں مغربی ممالک کو ہمارے پروگرام کی بھنک پڑگئی، ضیاء اور اسحاق فکر مند ہو گئے ڈاکٹر قدیر نے انھیں بتایا کہ انھیں کسی قسم کی رکاوٹ اور تاخیرکا سامنا نہ ہوگا یہ سن کر دونوں بے حد خوش ہوئے۔
ایک روز امریکی ڈیفنس اتاشی نے کشمیر جانے والے اقوام متحدہ کے جہاز میں بیٹھ کر کہوٹہ کی تصاویر بنا لیں،وہ یہ تصاویر لے کر جنرل ضیاء کے پاس پہنچ گئے، یہاں آپ کیا کام کرنا چاہتے ہیں، اسے علم نہ تھا، جنرل نے تصاویر کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور کہا ! ایکیلنسی آپ سفارتی آداب کی حدود پامال کر رہے ہیں، آئندہ امریکہ یااقوام متحدہ کا جہاز وہاں سے گزرا تو میرے حکم کے مطابق مار گرایا جائے گا۔ اس حساس مقام پر بین الاقوامی ادارے جاسوسی کرتے تھے جب کوئی انتظامیہ کے ہاتھ لگ جاتا اس کی مناسب ’’خاطر‘‘ کر دی جاتی۔
اپنی سوانح عمری میں وہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بہت کم عرصہ میں اس ریاست کو نہ صرف ایٹمی اور میزائل قوت بنا دیا بلکہ اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ،ہزاوں ڈالر کی ٹیکنالوجی مفت فراہم کی، سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری ڈاکٹر قدیر خاں کی خود نوشت ــــــــ داستان عزم حرف اعزاز میں رقم کرتے ہیں جنرل مشرف اور اسکے حواریوں نے ڈاکٹر موصوف کی کردار کشی کرتے ہوئے جو پاکستان کو نقصان پہنچایا وہ ناقابل تلافی ہے، اس پورے فسانے کی قلعی اس وقت کھل گئی جب معروف امریکی صحافی ایڈرین لیوی نے اپنے خط میں موصوف کو جنرل مشرف کی حکمت عملی سے آگاہ کر دیا، ڈاکٹر قدیر لکھتے ہیں بش کی گود میں بیٹھنے سے پہلے مشرف نے 7 2فروری2001 کو ایوان صدر میں میری اور ڈاکٹر اشفاق کی ریٹائرڈمنٹ کے موقع پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر قدیر اور ان کی ٹیم نے بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود شبانہ روز محنت سے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا اس پر قوم آپ کی ممنون اور احسان مند رہے گی،آپ ہمارے ہیرو ہیں کوئی بھی آپ سے یہ اعزاز چھین نہیں سکتا۔ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ڈاکٹر موصوف مخدوم جاوید ہاشمی، مشاہد حسین سید ،بحریہ کے ایڈمیرل عبدالعزیز کی موجودگی میں شکوہ کناں تھے کہ مشرف انھیں پریشان کر رہے ہیں اور دبائو ڈال رہے ہیں کہ میں سارا جھوٹا الزام اپنے سر لوں، ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب ’’ فسانہ ظفر‘‘ میں ڈاکٹر قدیر کی بریفنگ کی تفصیل دی ہے، سابق وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا مشرف نے کہاسی آئی اے کا جہازسلام آباد ائیر پورٹ پر ڈاکٹر قدیر کو لے جانے کے لئے کھڑا ہے آپ کابینہ ے منظوری لے دیں تاکہ انھیں روانہ کیا جاسکے، جمالی نے انکار کر دیا، قدیر خاں کہتے ہیں جمالی بہادر اور غیور پاکستانی ہیں، اس وجہ ے انکی حکومت ختم کر دی گئی۔
اپنی خود نوشت میں لکھا کہ جن احباب نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں تعاون کیا مشرف حکومت نے انھیں بھی پریشان کئے رکھا، ڈاکٹر موصوف نے بہت سے فلاحی منصوبے بھی شروع کر رکھے تھے، وہ اخبارات میں’’ سحر ہونے تک‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے تھے، ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہیرو کو نظر انداز کر دیا، ڈاکٹر مرحوم کو زیاددہ کھ معافی کا تھا جو ان سے ٹی وی پر گن پوائنٹ پر منگوائی گئی ،قوم کے لئے یہ انکی دوسری قربانی تھی، انکی یہ کتاب نسل نو کے لئے ایک مستند دستاویز ہے، جو اٹیمی کہانی کی داستان ہے، مغرب سے خالی ہاتھ والے ’’محسن پاکستان‘‘ نے کن کٹھن حالات کا مقابلہ کر کے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا یا، جن کے لئے آسانی پیدا کی انھوں نے ہی انکی بے توقیری کی جس پر ہر پاکستانی دل گرفتہ تھا، ایک شاعر نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔
حیات ہوتے گر اقبال اس زمانے میں
قصیدہ لکھتے وہ اس مرد جاوداں کے لئے