انگریز سرکار تو چلی گئی مگر بدقسمتی سے نظام وہی چلتا آرہا ہے۔ انگریز سرکار کے رویے بیوروکریسی نے ابھی تک اپنا رکھے ہیں۔ حاکم اور محکوم کا سلسلہ بھی جوں کے توں چلتا آرہا ہے۔ اگر کچھ بدلا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کل گورا اور آج کاٹھا گورا حکمران ہے۔ سچ کڑوا ہوتا ہے اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان المیوںکی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ان المیوں میں سے ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی بیورو کریسی خود کو حاکم اور عوام کو محکوم گرداننے پر بضد ہے۔ کسی حکومت کو بنانے اور گرانے میں اپنے وجود کو ناگزیر خیال کرنے کی منفی سوچ کے زیر سایہ آمریت کے درو دیوار کا حصہ بن چکی ہے۔ بلاشبہ کسی حد تک ان کی یہ بات درست بھی ہے کیونکہ جب سے سیاسی جماعتوں نے بیورو کریسی کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرنے کی داغ بیل اور رواج ڈالا ہے، اس دن سے آج تک نقصان ہوتا آرہا ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ بڑے بڑے سیاستدانوںکے میل ملاپ سے ان کے حوصلے اتنے بلند ہو چکے ہیں کہ بیورو کریسی کو اب پبلک سرونٹ لفظ سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس ہونے لگی ہے۔ گریڈ 18 کا ڈی سی ہی نہیں اور بھی ایسی مثالیں ہیں جو فائلوں میں تو پبلک سرونٹ ہوتے ہیں مگر جونہی کوئی شہری ان کو یاد دلانے کی کوشش کرے کہ آپ پبلک سرونٹ ہیں تو وہ اس وقت ایکدم آپے سے باہر ہو کر بد اخلاقی کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہ کہنا کہ بیورو کریسی بے لگام صرف اس دور حکومت میں ہوئی ہے صریحاً جھوٹ ہے۔ ہاں البتہ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت نے تو اسے مکمل طور پر مادر پدر بدعنوانی اور چرب زبانی کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ یہ تو اب خدا ہی جانتاہے کہ آنے والے وقت میں اس منہ زور بیورو کریسی کو کوئی قابو کر بھی پائے گا یا نہیں۔ بادی النظر میں تویہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ وقت اب کبھی دیکھنے کو نصیب نہیں ہو گا۔ دراصل اس نا امیدی مایوسی کی بڑی وجہ پارلیمنٹ کے نمائندوں اور آمریت کے درو دیوار تک رسائی ہے۔ اس وقت ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں بیورو کریسی کی جو دھکم پیل ہے، اس نے تو امید کی تمام کرنوں کو نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب نے عجلت میں چند سینئر بیورو کریٹس سے ناراضگی کی بنا پر قواعد و ضوابط کی کلی طور پر نفی کر کے آئین و قانون کو پس پشت ڈال کر پنجاب کے چھتیس اضلاع میں سے بائیس اضلاع میں گریڈ اٹھارہ کے جونیئرافسران کو بطور ڈپٹی کمشنر تعیناتی کر کے رہا سہا نظام بھی زمین بوس کر دیا ہے جس سے غربت، بیروزگاری ، مہنگائی، لاقانونیت اور کھاد کے بحران جیسے بڑے بحرانوں نے جنم لے لیا ہے جن کا کوئی تدارک ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ بیورو کریسی کی منہ زوری اور من مرضیاں اپنی جگہ مگر یہ حکومت کی بڑی غلطیوں کا شاخسانہ ہے مثال کے طور پر وزیراعلیٰ آفس میں ڈپٹی سیکرٹری کام کرنے والے گریڈ اٹھارہ کے افسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد علی اعجاز کو بطور ڈی سی تعینات کر کے ان کو ان مشکلات میں ڈال دیا ہے کہ وہ کسی طور پر بھی ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت پنجاب کے ایک فیصلہ نے گڈ گورننس کے حصول کو بیڈ گورننس میں بدل دیا ہے۔ نجانے پنجاب حکومت یہ کیوں بھول گئی کہ پنجاب زراعت کی ستر فیصد پیداوار دیتا ہے۔ آلو، گندم، مکئی اور چاول کی پیداوار پنجاب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اوکاڑہ ان چاروں اجناس میں ملک کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اس لیے یہاں بیورو کریسی کی بد انتظامی کے باعث کھاد کے مصنوعی بحران پر قابو پانے میں یکسر ناکام رہے ہیں۔ اس غیر یقینی صورت حال میں گندم کی پیداوار میں کمی آنا لازم ہے۔ کھاد کے بحران کی وجہ سے صوبہ بھر میں گندم کی پیداوار مطلوبہ نتائج پورے نہیں کر پائے گی اور تو اور ناتجربہ کار ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی نے نہ صرف کسانوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا بلکہ کھاد کے ڈیلروں کی چاندی کر دی۔
نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کسان اپنی فصلوں کو بچانے کے لیے کھاد کے مصنوعی بحران کا علم ہونے کے باوجود مہنگے داموں کھاد خریدنے پر مجبور نظر آئے جس کی دو بڑی وجوہات سامنے آئیں ایک تو کھاد ڈیلر انتظامیہ کی ملی بھگت اور دوسرا فیلڈ ورک کا تجربہ نہ رکھنے والے ڈپٹی کمشنر صاحبان نے بند کمروں میں بیٹھ کر جائزہ اجلاس اور فوٹو سیشن کو مصنوعی کارکردگی ظاہر کر کے حکومت کو گمراہ کرنے کا جرم کیا ہے۔ ہمیں اب ایک بار پھر گندم کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال کی ذمہ داری افسران سے زیادہ پنجاب حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ پنجاب حکومت کو چاہیے تھا کہ جب کھاد لینے آئے کسانوں پر انتظامیہ نے لاٹھی چارج کیا تھا تو بلا توقف اس اہم معاملہ پر نوٹس لے کر متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی نا اہلی پر اس کو سزا دیتی ۔ حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف کسانوں کی بر وقت داد رسی ہوتی کسان وزیراعلیٰ کے گن گاتے بھی نظر آتے اور دیگر اضلاع کے افسران کو بھی کان ہو جاتے مگر افسوس پنجاب حکومت نے چپ سادھ رکھی ۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا مزید غلطی پر غلطی کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ فوری طور پر حکومت کو گریڈ اٹھارہ کے افسران کی بطور ڈی سی تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس لے کر فیلڈ ورک کا تجربہ رکھنے والے گریڈ انیس کے افسران کو ڈپٹی کمشنر تعینات کر دینا چاہیے۔ یہ حکومت اور عوام دونوں کے مفاد میں ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت چیک اینڈ بیلنس کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھے۔ اگر بیورو کریسی کھاد کے بحران پر فیلڈ میں جاکر کھاد کی فراہمی یقینی بناتی تو پاکستان پیپلزپارٹی کو کھاد کی عدم دستیابی اور بحران کے خلاف سڑکوں پر آ کر کسان ٹریکٹر مارچ کرنے کا موقع نہ ملتا۔ کسان ٹریکٹر مارچ نے کسانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ کوئی تو ہو جو وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ باور کرا سکے کہ جن اضلاع میں کسانوں پر تشدد ہوا اور اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان کے خلاف فوری کارروائی کر کے کسانوں کے وقار کو بحال کر کے ان کے دل جیت لے تا کہ آئندہ بے لگام بیوروکریسی کو کسانوں کی عزت نفس مجروع کرنے کی جرأت نہ ہو۔