اسلام آباد : تین ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ جنوب مشرقی یورپ کے ملک یونان میں ایک شہر ایتھنز آباد تھا۔ یہ وہی شہر تھا جہاں سقراط پیدا ہوا جسے ماڈرن فلاسفی کا باپ کہا جاتا ہے۔
یہ وہی شہر تھا جہاں جمہوریت نے جنم لیا جو آج ماڈرن مہذب دنیا کی دلربا لاڈلی ہے۔ یہ وہی شہر تھا جو موجودہ یورپ کی آسمان چھو لینے والی ترقی کی بنیاد ہے۔ یہ وہی شہر تھا جس کی تنظیم اور بہادری سے پورا یونان متاثر تھا اور وہیں سکندر پیدا ہوا جسے تاریخ آج سکندر اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ایتھنز والوں نےتاریخ میں مقام بنانے کا یہ سفرمضبوط معیشت کی کاغذ ی کشتی پر طے نہیں کیا بلکہ انہوں نے دنیا میں حقیقی ترقی کا اسمِ اعظم دریافت کیا جو بہت سادہ تھا۔
یہ ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کاڈھانچہ بنایا۔ اسے ’’ایتھنز ویژن‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ایتھنز والے اپنے بچوں کے لئے مکمل اور متوازن تعلیم چاہتے تھے۔ وہاں ایسا تعلیمی نظام شروع کیاگیا جس سے طالبعلموں کی جسمانی، دانشمندانہ اور اخلاقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتیں۔ پرانے ایتھنز میں تعلیم دینے کے لئے ریاست کا کوئی دبائو نہیں تھا لیکن تعلیم کی اہمیت کو جانتے ہوئے معاشرے میں اتنا شعور آچکا تھا کہ ہر خاص و عام شہری اپنے بچوں کو لازمی تعلیم دلواتاجس کی وجہ سے ایتھنز میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ سکول کھل گئے۔
’’ایتھنز ویژن‘‘ کے تحت بچوں کو پیدائش سے ایک برس کی عمر تک کھیل اوررنگوں سے لطف اندوز کرایا جاتا ۔ اس کے بعد چھ بر س کی عمر تک لڑکے اپنی ماں یا غلام سے اور لڑکیاں صرف اپنی ماں سے گھر میں ہی تربیت حاصل کرتیں۔ سات برس کی عمر کو پہنچتے ہی لڑکیوں اور لڑکوں کی سکولنگ علیحدہ علیحدہ کر دی جاتی ۔لڑکے سات سے چودہ برس کی عمر تک شہر میں قائم پرائیویٹ سکول جاتے جو پرائمری تعلیم کہلاتی۔ لڑکوں کے سکول کے استاد ہمیشہ مرد ہوتے۔
سکول میں تین پریڈ ہوتے ۔ پہلا پریڈ لکھنے، پڑھنے اور حساب کتاب سے متعلق ہوتا۔ دوسرا آرٹ، رقص وموسیقی اور شاعری کاتھا۔اس پریڈ میں طالبعلم میوزک، شاعری اور ادب کے ذریعے اخلاقیات اور تہذیبی اقدار سیکھتے۔ پرائمری سکولنگ کا تیسرا پریڈ جسمانی تربیت کا ہوتا۔ یہ ٹریننگ شہر کے سٹیڈیم میں سہہ پہر کو دی جاتی۔ طالبعلم ریسلنگ، جمپنگ، بھاگنے اور نیزہ بازی کی پریکٹس کرتے تاکہ وہ مضبوط جسم کے ساتھ بہادر اورجرات مند مرد بن سکیں۔طالبعلم لڑکے جب سولہ برس کے ہوتے تو اُن کی بنیادی تعلیم مکمل ہوچکی ہوتی۔اس کے بعد اُن میں سے کچھ سائنس اور فلسفے کے علم کی طرف چلے جاتے۔
صحت مند جسم رکھنے والے طالبعلم اٹھارہ سے بیس برس کی عمر تک لازمی ملٹری ٹریننگ حاصل کرتے۔دوسری طرف لڑکیاں سات برس کی عمر کے بعد گھروں میں ہی اپنی ماؤں یا پرائیویٹ ٹیوٹر سے لکھنے پڑھنے ، رقص و موسیقی اورامور خانہ داری کی تعلیم حاصل کرتیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کا بنیادی مقصد انہیں بہترین گھر داری سکھانا اور بہترین ماں بننے کے لئے تیار کرنا ہوتا تھا تاکہ وہ اپنے بچوں کو اچھا شہری بنا سکیں۔ لڑکو ں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ نئی نسل اپنے نامور آباؤاجداد اور دیو تاؤں کو یاد رکھے ۔
مثلا طالبعلم موجودہ شاعری کے جد امجدشاعر ’’ہومر‘‘ جو ایتھنز کا ہی ایک قدیم نابینا شہری تھا کی شاعری روزانہ لہک لہک کر پڑھتے ۔وہ روزانہ اپنے دیوتاؤں کی قسم کھا کر اپنے وطن سے وفاداری کا عہدبھی کرتے ۔ یونان کے ایک دوسرے شہر’’ سپارٹا‘‘میں وطن سے محبت کی ٹریننگ اتنی سختی سے دی جاتی کہ اس کی مثال آج بھی نہیں ملتی ۔ مثلا طالبعلموں کو چوری کرنے کی سزانہیں ملتی تھی لیکن اگر کوئی طالبعلم چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا تو اسے بدترین سزا دی جاتی ۔اس فلسفے کے پیچھے یہ انوکھی منطق تھی کہ جب یہ طالبعلم عملی میدان میں داخل ہو کر وطن کا سپاہی بنے گااور دشمن ملک میں جا کر کارروائی کرے تو ہر گز پکڑا نہ جائے ۔
اس بات کو سمجھانے کے لیے یونان کی درسی کتابوں میں ایک کہانی تھی۔ جس میں بتایا گیا کہ’’ ایک مرتبہ پرائمری سکول کے طالبعلم نے دوسرے کیمپ سے جا کر ’’لومڑ‘‘ چرایا ۔ جب وہ واپس آ رہا تھاتو استاد نے اسے پکڑ لیا ۔ لڑکے نے ’’لومڑ‘‘ کو اپنے کپڑوں کے اندر اپنے جسم سے چپکا لیا ۔استاد نے چوری کے بارے میں پوچھا تواُس نے صاف انکار کر دیا ۔ استاد بار بار پوچھتا رہا لیکن وہ نہ مانا ۔ اس دوران ’’لومڑ‘‘ اپنے پنجوں اور دانتوں سے لڑکے کا جسم کاٹتا رہالیکن لڑکے نے اپنے چہرے پر درد کے آثار ظاہر نہیں کیے ۔
جب وہ شدید زخمی ہو کر گراتو استاد نے پھر پوچھا لیکن لڑکے نے آخری سانس لیتے ہوئے بھی چوری سے انکار کر دیا ‘‘۔ایتھنز والوں نے وطن سے وفاداری اور دنیاوی ترقی کا ’’اسم اعظم‘‘اپنے شہریوں کی جسمانی ، اخلاقی،جمہوری اور تہذیبی تعلیم میں دریافت کیا تھا۔کل شب میڈیا میں یہ خبر آئی کہ پاکستان 2050میں دنیا کی 16ویں معاشی طاقت بن کر کینیڈا اور اٹلی کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار پریہ اچھی خبر ہے ۔
اس پر حکمران مبارکبادیں بھی وصول کر رہے ہیں لیکن ہماری نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے بارے میں اب تک کوئی سروے رپوٹ سامنے نہیں آئی کیا ہمارے حکمران اس بات کا یقین دلا سکتے ہیں کہ 2050کی کسی سروے رپوٹ میں پاکستان کے شہریوں کا تعلیمی، اخلاقی، تہذیبی، جمہوری اور وطن سے وفاداری کا معیارکم از کم تین ہزار برس پرانے ایتھنز والوں جتنا ضرور ہوگا؟