آسیب کا سایہ

Amira Ehsan, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

منیر نیازی یہ کہہ کر رخصت ہوگئے: منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے.... اب اس شبہے میں حقیقت کا رنگ بھر چکا ہے۔ واقعی آسیب زدگی کے آثار ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم ہاو¿س کے قصوں سے قطع نظر، عجیب و غریب واقعات آئے دن ہلاکر رکھ دینے کا سامان کرتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے بھوت بھتنیاں بلائیں بن بن کر نوجوانوں نے جو تماشے کرنے شروع کردیے، اب ہر طرف ہی آسیبوں کا ڈیرا ہے۔ نور مقدم سے نکل کر ٹک ٹاکر کی بیہودگی نے آلیا۔ انفرادی ان گنت ایسے واقعات اور ان پر مستزاد یکایک تحریک لبیک کی گرفت میں 2 ہفتے کا بھونچال۔ اسی سب کے دوران قوم پر بجلی گیس پیٹرول گرانی اور ڈالر کے چھوٹے بڑے دھماکے پٹاخے۔ اکتوبر کے ان 2 ہفتوں کے دوران 7 پولیس اہلکار جاںبحق ہوئے۔ 2 نومبر ڈان رپورٹ میں پولیس اہلکار سب مشین گن کی فائرنگ، نیز سر اور سینے پر تشدد کا نشانہ بنے تھے۔ یرغمال بناکر پرجوش جوانوں کے ہاتھوں کل 520 پولیس والوں کے زخمی ہونے کی خبر (پولیس ذرائع کے حوالے سے) اس رپورٹ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد خفیہ مذاکرات کے ذریعے تحریک لبیک پر سے پابندی اٹھا دی گئی۔ قیدی سب رہا ہوگئے۔ سب کچھ یوں نارمل ہوگیا گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ حکومت کے سر پر جو خود سری کا بھوت سوار ہوا تھا، ہوا ہوگیا، تاہم یہ سیاست کافی مہنگی رہی۔ چار اضلاع کی پولیس 15 دن میں 10 کروڑ کا کھانا کھا گئی۔ اس سے تو ہاتھی فورس پال لیں تو انسانی جانی ضیاع بھی نہ ہو اور سستی پڑے۔
اس دوران ہر طرف بلوچستان، چارسدہ، گوادر کوئی نہ کوئی ہنگامہ جاری رہا۔ بیٹھے بٹھائے اسلام آباد کے اسکول میونسپل کمیٹی کو سونپ دیے جانے پر ہاہاکار مچی۔ میونسپل کمیٹی شہر دلپذیر کی صفائی تک کا کام سنبھال نہیں پاتی، سبزی فروشوں کی ریڑھیاں الٹانے کا کام بخوبی کرتی ہے۔ اب اساتذہ اور تعلیم کو کیا تارے دکھائے گی، اسی خوف سے اسکول بند پڑے ہیں۔ خدا خدا کرکے تعلیمی سلسلہ بحال ہوا تھا جو اس درفنطنی کے ہاتھوں پھر ٹھپ ہوگیا۔ ہو نہ ہو اصل آسیب آئی ایم ایف کا ہے، جس کے بارے میں گورنر پنجاب یہ کہہ کر خاموش ہو رہے کہ آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر قرض کے عوض سب کچھ لکھوا لیا ہے۔ یہ راز ہے کہ کیا کچھ لکھوایا ہے۔ ہمیں سانس لینے کی فرصت ملے، دم مارنے کی مجال ہوتو عوام پوچھیں تو کہ یہ خفیہ کاری کیا ہے؟ عوام سے بالابالا حکمران ہمارا رہاسہا بھی داو¿ پر لگا چلے ہیں۔
ہم پے درپے چرکوں سے سنبھلے نہ تھے کہ سیالکوٹ کے اذیت ناک سانحے نے دل دماغ ہلاکر رکھ دیے۔ نوجوان ملک کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ جوانی کی قوتیں صلاحیتیں اگر درست رہنما اور رہنمائی پا جائیں تو قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ قیام پاکستان میںجوانی کا جوش وجذبہ اقبال کے خوابوں اور قائداعظم کی محنتوں کے ہم قدم چلا.... پاکستان کامطلب کیا.... لاالہ الااللہ کے نعروں میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ اسلام کے نام پر ایک خطہ¿ زمین بے پناہ قربانیوں اور بلند ہمتی کے ساتھ معجزہ بن کر دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ پاکستان! پھر اس کی پاکی، پاکیزگی، شادابی شتر بے مہاری کے ہاتھوں زرد پڑتی گئی۔ گزشتہ 20 سال میں جوان ہونے والی نسل افراط وتفریط، ژولیدہ فکری، کنفیوژن کی ماری، ہاو¿ہو تھپیڑوں میں پلی ہے۔ نظریے سے محروم قصداً کی گئی ہے۔ شناخت کا بحران مزید ہے۔ حقیقی اسلام پھلنے پنپنے کی اجازت اس نظام میں نہیں ہے۔ اسلام کے
نام پر رنگ برنگے چورن بٹ رہے ہیں۔ چونکہ قوم کا بنیادی مزاج جذباتی ہے، سو اس کے استحصال کے چور دروازے بہت ہیں۔ فرائض وواجبات سے بے بہرہ ہوںگے لیکن اسلام کے نام پر بھڑک اٹھنے کا شدید آتش گیر مادہ اندر لیے پھرتے ہیں۔ سیالکوٹ میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ توجہ دلاتے قلم گھس گیا کہ خدارا نوجوانوں کو قرآن، حدیث پڑھانے کا مساجد میں کماحقہ انتظام کیجیے تاکہ اصل دین ان کی تربیت میں اترے۔ فروعی مسائل کی بجائے ملک کی صلاح، فلاح، بقا کی ضمانت اسی تعلیم وتربیت سے ہے۔ شان رسالت کے تحفظ کا عظیم فریضہ جس سنجیدگی، علم، تدبر، تفقہ اور راسخ عقیدے کی بنیاد پر ہوتا ہے، وہ عنقا ہے۔ اس کی جگہ جذباتی نعرے، مسئلے کی حساسیت کے فہم کے بغیر الٹا دشمن کے ایجنڈوں کو تقویت دینے کا سامان کیے دیتے ہیں۔ سیالکوٹ کا واقعہ اسلام کے نام پر برپا کیے جانے والے طوفان بدتمیزی اور غنڈا گردی کا خوف ناک مظاہرہ ہے۔ کیا اب پنجاب میں بھی کراچی پر مسلط خوف کے طویل دور کا سماں ہوگا؟
ایک سخت گیر مینجر سے نالاں ورکرز کو کام چوری پر سرزنش کے ساتھ ایک غیرذمہ دارانہ چوک ہوگئی۔ دیوار پر جابجا لگے پوسٹر اتارتے ہوئے اسی زمرے میں دینی مواد (واضح تفصیل نہیں آئی) پر مبنی اشتہار/ پوسٹر تھا جسے اتار پھینکا۔ شورشرابے پر اس نے معافی مانگ لی لیکن آگ نے فوراً ہی اس کا دامن پکڑ لیا۔ راجکو انڈسٹریز کے ورکرز فیکٹری کے اندر احتجاج کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تعداد درجنوں سے سینکڑوں ہوگئی۔ مقامی لوگ بھی آگئے۔ لبیک یا رسول اللہ کے نعرے ڈان پر ویڈیو رپورٹ میں سنے جاسکتے ہیں۔ مارتے پیٹتے، بچانے والوں کو ہٹاکر گھسیٹ کر اسے سڑک پر لے آئے۔ 10 بجے شروع ہونے والا ہنگامہ 45: 10پر پرتشدد ہوگیا۔ 11 بجے تک مینجر کی موت واقع ہوچکی تھی۔ اس ایک گھنٹے میں قانون کہاں تھا۔ پولیس، گارڈ، ہوش مند انسانوں کی کوئی جھلک کہیں دکھائی کیوں نہ دی۔ پولیس کیا پہلے چرکے کھاکر گریزاں ہوچکی ہے؟ الیس منکم رجل رشید....؟
جس دین میں حربی کافر کی لاش کے مُثلے کی اجازت نہیں اس میں لاش کو آگ لگاکر اس کے گرد کریہہ منظر میں شان رسالت کے نعرے لگاکر اسلامیت داغدار کی گئی۔ اس لاقانونیت پر حکومت سانحے کی ذمہ دار ہے۔ سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے والے سارے دھواں دھار بیانات بے معنی ہیں۔ کڑے ہاتھ سے بروقت نمٹنے کی بجائے بعد ازاں اسے اہل دین یا مدارس کو دیوار سے لگانے یا توہین رسالت قانون پر مغربی دباو¿ کے تحت لچک پیدا کرنے کے شرمناک عندیے دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔
اقلیتوں کے جان ومال کا تحفظ مسلم ریاست کی مکمل ذمہ داری ہے۔ تاہم افراط وتفریط کا یہ عالم ہے کہ قوم کو رواداری کے نام پر دنیا بھر کے مذاہب کے دن منانے میں جوت رکھا ہے۔ مسلسل دیوالی، ہولی، بسنت، ہیلووین، کرسمس سبھی کچھ منانا پاکستانیوں کے ذمے قرار پایا ہے۔ قادیانی آسیب الگ سرسراتا رہتا ہے۔ گورنر پنجاب نے برطانیہ جاکر اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی لارڈ طارق احمد کو اعزازِ پاکستان سے نوازا۔ یہ پاکستانیوں کے عقیدے اور آئین کے مضمرات، اس کی روح کے منافی عمل تھا۔ اس ساری مرنجاں مرنجی کے باوجود، (جس میں اہلِ دین فورتھ شیڈول بنا رکھے ہیں) امریکا ہمیں مذہبی آزادی کے حوالے سے سی پی سی واچ لسٹ میں ڈال کر بیٹھا ہے۔ بھارت، جہاں مسلمانوں پر قیامتیں ہو گزرتی ہیں، کشمیر ظلم کے بدترین شکنجے میں ہے، کسی واچ لسٹ کی فہرست میں نہیں۔ یوپی کی مزید دو مساجد مسمار کرنے کی ذمہ داری بھارت ہندو انتہاپسند تنظیموں کے سپرد کر چکا ہے۔ آئے دن کے سیالکوٹ جیسے واقعات، کشمیر کے بچوں جوانوں سے پیلٹ گنوں سے چھینی جاتی بینائی وہاں کسی گنتی شمار میں نہیں آتی۔ تاہم ہمارے ہاں کا یہ واقعہ اب سیکولر طبقے اور بیرونِ ملک قانون توہینِ رسالت کے درپے ہونے والوں کے لیے سنہری موقع ہے، سینہ کوبی اور دباو¿ بڑھانے کا۔ اہلِ اسلام اس سے اظہار برا¿ت کرچکے۔ یہ ذاتی چپقلش پر اسلام کا رنگ چڑھاکر ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اسلام کی خدمت نہیں کی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ، جو کافر کو ڈھاکر اس کے سینے پر بیٹھے قتل کرنے کو تھے۔ حربی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر تھوک دیا۔ وہ فوراً سینے سے اتر گئے کہ اب نفس کی آمیزش ہوگئی، اب تجھے قتل نہیں کرسکتا، اخلاص فی اللہ پر نفس کے غصے کی آلودگی آ گئی۔ اسے چھوڑ دیا۔ یہ اسلام ہے۔ یہ فیصلہ کرنا ان افراد کا کام نہیں تھا کہ دینی مواد اس نے جان بوجھ کر اتار پھینکا ہے یا زبان سے نابلد ہونے کا نتیجہ ہے۔ یہ قتل ناحق ہے جس کا دھبا تصورِ اسلام کو داغدار کر رہا ہے۔ فیکٹری الگ تباہ کی، آگ لگانے کی کوشش میں نقصان۔ 900 مزدوروں کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر، ان کی روزگار سے محرومی کا سامان۔ دگرگوں ملکی صنعتی معاشی حالات میں مزید اضافے کا سامان۔ واقعہ اگر چارلی ایبڈو نما ہوتا تو شانِ رسالت پر سبھی کچھ قربان ہوسکتا ہے مگر اس واقعے کا کوئی جواز نہ تھا۔ رہی قانون کی کارفرمائی، تو وہ بھی منیرنیازی ہی کی.... ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں کی مصداق ہے۔