پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی معاہدے کے بعد یہ امید پیدا ہو چلی تھی کم ازکم سیاست میں مخالفین کے خلاف اب ذاتیات کی سیاست ہوگی اور نہ ریاست دشمنی یا غداری کے فتوے لگیں گے۔ کچھ عرصہ سکون بھی رہا لیکن جس طرح بچھو کے وصف میں شامل ہے کہ وہ ڈنک مارے نہیں رہ سکتا اسی طرح دونوں جماعتیں پھر اپنی پرانی ڈگر پر آ گئیں۔ مسلم لیگ کے ”تنظیم سازی“ کے حوالے سے مشہور سابق ایم این اے نے سوشل میڈیا پر NA 133 کے ضمنی انتخابات کے حوالے سے جس طرح بلاول بھٹو کے خلاف گھٹیا اور بازاری گفتگو کی یہ ان کی تربیت اور پارٹی قیادت کی ایسی حرکات پر اشیر باد ظاہر کرتی ہے۔ موصوف کی کرنٹ افیئرز کے پروگرامز بھی گفتگو کا معیار یا حرکات بھی اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے سنا یا دیکھا جا سکے۔ اس سے قبل وہ ”تنظیم سازی“ کے حوالے سے ایک واقع پر بھی میڈیا کی زینت بنے۔ لیکن پارٹی قیادت نے ان کا نوٹس لینے یا سرزنش کرنےکی بجائے ان کی حرکات کو نظر انداز کیا یا دوسرے معنوں میں حوصلہ افزائی کی جس کی وجہ سے انکی اس طرح کی چیرہ دستیاں بڑھتی گئیں۔ جس کا تازہ شکار بلاول بھٹو بنے۔ پیپلز پارٹی کی پلوشہ خان نے ایک ٹی وی شو میں ایک سوال پر ان کی اس حرکت پر یہ تبصرہ کر کے طلال چوہدری کو ”گٹر کے ڈھکن“ سے تشبیہ دے کر بات ختم کر دی کہ اسے ڈھکا ہی رہنے دیں ورنہ اس کی بو چار سو پھیل جائے گی۔ اسی ٹی وی شو میں مسلم لیگی ممبر قومی اسمبلی شاہ نوازرانجھا بھی موجود تھے انہوں نے بھی طلال چوہدری کی ہرزہ سرائی کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ پلوشہ خان کے ریمارکس کو بھی well left کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے ان کی حرکات کا نوٹس اب تک کیوں نہ لیا؟ ایک سینئر مسلم لیگی سے جب میں نے اس حوالے سے پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ جب جاوید لطیف کی مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور اعلیٰ قیادت کے خلاف بیان بازی پر ان کو دیا گیا شو کاز نوٹس نواز شریف کی ہدایت پر عملی طور پر واپس لے لیا گیا تو پھر طلال چوہدری یا اس قماش کے لوگ جن کوپارٹی میں گالم گلوچ بریگیڈ کہا جاتا ہے کے خلاف کاروائی کی توقع کرنا فضول
ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی حرکات لیڈرشپ کو خوش کرنے کے لیے کی جاتی ہیں اور لیڈر شپ کا نوٹس نہ لینا بھی ظاہر کرتا ہے ان کو ایسی حرکات کی اشیر باد حاصل ہے۔ ایک مسلم لیگی نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ جیالی ایم پی اے عظمیٰ بخاری کی مسلم لیگی قیادت خاص طور پر نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف غلاظت سے بھر پور بیان بازی سوشل میڈیا پر اب تک موجود ہے اگر مسلم لیگ انہیں قبول کر سکتی ہے تو پھر تنقید فضول ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی ٹکٹ کے لیے جب عظمیٰ بخاری کا انٹرویو ہو رہا تھا شہباز شریف ان سے مخاطب ہوئے کہ ”عظمیٰ جس طرح آپ ہم پر تنقید اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا دفاع کرتی تھیں امید ہے اسی طرح ہمارا بھی کریں گی “۔ اس پر عظمیٰ بخاری نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ اس کے بعد مجھے مسلم لیگیوں کے اس بیان میں وزن نظر آیا کہ قیادت ایسے کرداروں کو خود پالتی ہے۔ اس سلسلے میں بعض پارٹی قائدین شریف خاندان کے سیاسی ترجمان محمد زبیر کی قابل اعتراض ویڈیو کی مثال دیتے ہیں اور بقول ان کے اگر اس کے باوجود زبیر پارٹی قیادت کی آنکھ کا تارا ہیں تو اس سے ان کی ترجیحات ظاہر ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی نے کبھی بھی سیاست میں ذاتیات یا خواتین کو نہیں گھسیٹا۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر پیپلز پارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو وطن دشمنی اور پاکستان کے خلاف قرار دے دیا۔ حال ہی میں لاہور کے بلاول ہاوس میں پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو پاکستان کی دھرتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔ شہباز شریف نے اس کا جواب جوابی تنقید کی بجاے محض گلہ کرنے کی صورت میں دیا۔ جس سے لگتا ہے کہ دونوں اپوزیشن جماعتیں آپس میں نہیں الجھنا چاہتیں۔ یہ اچھی اپروچ ہے۔ زرداری صاحب اس سے قبل بھی نواز شریف پر تنقید کر چکے ہیں لیکن شہباز شریف کے محض ”گلہ“ نے اس سلسلے میں مزید گند اچھلنے کو روک دیا ہے ورنہ مسلم لیگ ن کی پیپلز پارٹی پر تنقید تو کردار کشی کی تمام حدیں عبور کرچکی ہے۔ مسلم لیگ ن کے پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ نے بھی آصف زرداری کے بیان پر جارحانہ تنقید کی بجاے انہیں مسلم لیگی قیادت پر تنقید کے لیے بہتر الفاظ کے چناﺅ کا مشورہ دیا جو کہ خوش آئند ہے۔ آصف زرداری صاحب کے پی ڈی ایم کے اجلاس میں میاں نواز شریف کو ملک میں واپس آکر حکومت کے خلاف جدوجہد میں حصہ لینے کے بیان پر مسلم لیگ ن نے جو ان کی مٹی پلید کی تھی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بہرحال اس بار آصف زرداری صاحب کے مسلم لیگی قیادت کو وطن کی دھرتی کے لیے خطرہ قرار دینے کے بیان پر جس تحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ سیاست میں ذاتیات کی بجائے اشو اور رواداری کی سیاست ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ میں اس مثبت رویے کا سارا کریڈٹ میں شہباز شریف کو دوں گا کیونکہ وہ سیاست میں گالم گلوچ کے قائل نہیں۔ سیاست میں اس طرح کے مثبت روایت کی ترویج ہونی چاہیے اسی میں سیاست اور جمہوریت کی بھلائی ہے۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔