اللہ کا شکر ہے کہ دنیا میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے موجود ہیں جو بلاامتیاز بغیر کسی دباﺅ کے مختلف ممالک کے کرپٹ حکمرانوں اور ان کے اداروں کو ان کا اصل چہرہ عوامی رائے کے مطابق دکھاتے رہتے ہیں ،حال ہی میں ان کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پولیس پہلے ،عدلیہ دوسرے اور ٹینڈرنگ یعنی ہمارا ٹھیکیداری نظام عوامی رائے کے مطابق کرپشن میں سرفہرست ہیں ،تبدیلی سرکار جنہیں ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹس سابقہ ادوار میں بہت اچھی لگتی تھیں کو ان کے اپنے دور میں نہیں بھاتیں کیونکہ انہوںنے ایمانداری کا جو لبادہ اوڑ ھ رکھا ہے وہ چاک ہوتاہے جبکہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان میں کرپشن کا گراف بتدریج اوپر جارہا ہے ،ہماری عدلیہ 126 ویں نمبر پر موجود ہے ،اب پولیس کا ادارہ ان سے بھی نمبر لے گیا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ ہماری پولیس جرائم کی روک تھام کی بجائے اس میں اضافہ کا ذریعہ بن رہی ہے ،یہ بات کون ذی شعور بندہ نہیں جانتا کہ جتنے بھی قمار بازی ،جوئے اور منشیات فروشی کے اڈے ہوتے ہیں وہ پولیس کی آشیر باد اور ملی بھگت کے بغیر نہیں چل سکتے ،چوری ،ڈکیتی ،راہ زنی ،سمگلنگ کی وارداتوں میں بھی پو لیس کی غفلت اور بعض اوقات ملی بھگت ہوتی ہے ،شریف شہریوں کو تنگ کرنا اور جرائم پیشہ اور کرپٹ سیاسی لوگوںکی سرپرستی اور ان کی چودھراہٹ پولیس کی وجہ سے ہی قائم ودائم ہے ،ہمارے تھانے عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں ،معمولی نوعیت کی وارداتوں کے بعد اب بڑی چوری ،چکاری کی ایف آئی آر عوام درج کروانے اور پولیس درج کرنے سے گریزاں ہے ،آپ کو قسمت سے ہی کوئی ایماندار افسر ،اہلکار نظر آئے گا ،پولیس کلچر ہر آئے دن کے ساتھ ابتری کی جانب رواں دواں ہے ،لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ کرپشن میں پہلے نمبر پر ہونے کے باوجود پولیس افسران ایک دوسرے کو ہر وقت کارکردگی اسناد تقسیم کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں ،ان پر اردو کا محاورہ اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار اپنوں کو مکمل صادق آتاہے ،پولیس کے حالیہ نظام میں جونیئر کو سنیئرز کی پوسٹوں پر براجمان کرنا جہاں ایک طرف عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے، وہاں دوسری جانب یہ بہت سی خرابیوں کو جنم دے رہی ہے ،ہماری عوام دوست کہلوانے والی پولیس میں آج کل ایک نیا طریقہ چل رہا ہے کہ وہ جب کوئی ملزم پکڑتے ہیں تو انہیں میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن ملزمان کے منہ پر نقاب ڈال کر کیوں؟بھائی انہیں سامنے کیوں نہیں لاتے ،البتہ کسی شریف شہری کو رسوا کرنے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ، پولیس اور عدلیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ،عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد
میں مقدمات پولیس ،عدلیہ کی روائتی سستی ،نااہلی کے باعث معرض التواءمیں پڑے ہوئے ہیں ،پولیس کی شہادت ،وکیلوں کی عدم پیروی ،آئے روز کی ہڑتالوں ،احتجاجوں ،ججوں کی چھٹیوں اور اب کورونا کے باعث مدعیان تنگ ہوکر رہ جاتے ہیں ،ہماری عدالتوں کو ایمنسٹی انٹر نیشنل نے کرپشن میں دوسرے نمبر پر رکھا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ججوں کی بھاری تنخواہوں ،مراعات اور وکیلوں کی بھاری فیسوں کے باوجود انصاف کی فوری
فراہمی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ،خیبرپختونخوا کی سطح پر 2014 میں ناصر خان درانی مرحوم جو کہ اس وقت یہاں آئی جی تھے نے ڈی آر سی کا سسٹم پولیس میں متعارف کروایا تھا جس میں اچھی شہرت کے حامل غیر سیاسی لوگوں کو ممبر بنا کر عوام کے مسائل ،تنازعات حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، ڈی آر سی کے قیام کا واحد مقصد عدالتوں اور پولیس پر سے بوجھ کم کرنا تھا ،ابتداءمیں لوگوں کے ہزاروں کی تعداد میں کیسز حل ہوئے ،راقم بھی ساڑھے چار سال تک اس کا ممبر رہا لیکن ناصر درانی کے جانے کے بعد یہ سسٹم مکمل فلاپ ہوگیا ،صرف اس لئے کہ افسران بالا کی جانب سے اس میں سیاسی افراد بھرتی کرنے کے باعث عوام کا اعتماد اس اہم ادارے سے اٹھ گیا ،ہماری عدالتوں اور پولیس کا بوجھ کم کرنے کے لئے ڈی آر سی کاسسٹم کافی مدد گار تھا جس کا کریڈٹ عمران خان اپنے ابتدائی دور میں لیتے تھے لیکن اب ان کے دور میں دیگر اداروں کی تباہی وبربادی کی طرح ڈی آر سی کا سسٹم بھی روبہ زوال ہے بلکہ آخری سانسیں لے رہاہے۔ویسے توہمارے ملک میں کرپشن کا ناسور دیمک کی طرح ہماری جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے ،ہر ادارہ ماسوائے موٹر وے پولیس کے کرپشن کا شکار ہے ،تبدیلی سرکار کے دور میں کرپشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے لیکن موجودہ حکومت ہر وقت کرپشن کرپشن کا راگ الاپتی رہتی ہے ،ہمارے وزیر اعظم ہر وقت ایمانداری ،صداقت کا بھاشن دیتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے ،وہ اس سے غافل ہیں ،چینی ،آٹا ،ادویات ،رنگ روڈ سیکنڈلز میں کھربوں روپے کی کرپشن ان کے اپنوں نے کی لیکن کاروائی ندارد ،ان کے اردگرد سابقہ ادوار کے ان تمام وزراءکا مجمع موجود ہے جنہوںنے نواز شریف ،زرداری ،مشرف دور میں اقتدار کے مزے لوٹے ،کھربوں کی کرپشن کی اور آج ملک کو تبدیلی سرکار نے تباہی وبربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ،ہمارے ملک کے تمام بڑے احتسابی ادارے حکومتی اور اسٹیلشمنٹ کے دباﺅ کا شکار ہیں لیکن ایمنسٹی انٹر نیشنل حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کےلئے کافی ہے۔