دیارِ غیر میں آئے تھے سکون کے چند لمحے گزارنے لیکن 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں ہونے والے سانحے نے سارا سکون ہی برباد کر دیا۔ ہمارا پریانکا کمارا سے سوائے انسانیت کے کوئی رشتہ نہیں۔ شاید اِسی لیے ذہن سے بار بار جھٹکنے کے باوجود اُس کا شعلوں میں گھرا جسم ہماری انسانیت کا تمسخر اُڑانے پہنچ جاتا ہے۔ سری لنکن شہری راجکو فیکٹری سیالکوٹ میں منیجر تھا۔ 3 دسمبر کو اُس نے فیکٹری کی دیواروں پر چسپاں چند سٹکر دیکھے۔ اُردو زبان سے نابلد پریانکا نہیں جانتا تھا کہ وہ مذہبی سٹکر تھے اِس لیے اُس نے وہ سٹکر اُتار دیئے۔ بَس یہی اُس کی غلطی تھی جس کی اُسے ایسی بھیانک سزا دی گئی کہ درندگی بھی مُنہ چھپانے لگی۔ مزدوروں کا غیض وغضب دیکھ کر وہ فیکٹری کی چھت پر چڑھ گیا۔ فیکٹری کے مشتعل نوجوانوں نے اُس کا پیچھا نہ چھوڑا اور چھت پر جا کر پہلے اُس کے جسم کی ساری ہڈیاں توڑیں اور پھر اُس کی لاش گھسیٹ کر سڑک پر لائے اور پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ پریانکا کے بھائی نے کہا کہ چند لوگ کہتے ہیں کہ جب پریانکا کو آگ لگائی گئی تو اُس وقت وہ زندہ تھا (پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اِس کی تصدیق نہیں کرتی) ۔ مشتعل نوجوان آگ کو مزید بھڑکانے کے لیے اُس کی لاش پر چادریں اور مفلر پھینکتے، سیلفیاں اور ویڈیو بناتے ہوئے ”لبّیک یا رسول اللہ“ کے نعرے لگاتے رہے ۔ ایسے افراد کو کیسے حضورِاکرم ﷺ کا پیروکار کہا جا سکتا ہے۔آپﷺ کو تو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔
پریانتھا کمارا 2010ءمیں سیالکوٹ آیا۔ یہ وہی سال ہے جب اِسی سیالکوٹ میں 2 حافظِ قُرآن بھائیوں حافظ مغیث اور حافظ منیب کو بے دردی سے قتل کرکے اُن کی لاشوں کو ٹریکٹر ٹرالی میں ڈال کر سیالکوٹ کی سڑکوں پر گھمایا گیا۔ قاتلوں کو دہشت گردی عدالت نے سزائے موت سنائی جو ہائیکورٹ نے عمر قید میں بدلی اور سپریم کورٹ نے 10 سال قید میں۔ قاتل کب کے اپنی سزائیں بھگت کے واپس آچکے ہوں گے۔سوال مگر یہ کہ کیا عدلیہ کا فیصلہ دینِ مبیں کے مطابق تھا؟ کیونکہ دین تو قصاص کا حکم دیتا ہے۔ جس گلے سڑے معاشرے میں جھوٹ، فراڈ اور کرپشن اپنی انتہاو¿ں کو پہنچ چکی ہو، جہاں عزت محفوظ ہو نہ جان ومال، جہاں انصاف بِکتا اور احتساب زورآوروں کا حربہ ہو، جہاں قبروں پر پلازے بنائے جاتے ہوں، جہاں گدھوں کتّوں اور مردار جانوروں کا گوشت بیچا اور کھلایا جاتا ہو، جہاں جعلی دوائیوں سمیت کھانے پینے کی ہر شے میں ملاوٹ ہو، جہاں عدالتوں میں قُرآن پر جھوٹے حلف اُٹھائے جاتے ہوں اور جہاں آئے دن سیالکوٹ جیسے سانحات جنم لیتے ہوں، وہاں رہنے کا کیا جواز؟۔
تسلیم کہ بُری حکمرانی کے ذریعے وطنِ عزیز کو اِس حالت تک پہنچانے میں آمریت اور سابق
جمہوری حکمرانوں کا بھی کردار رہا ہوگا لیکن اِسے بامِ عروج پر بہرحال موجودہ حکومت نے پہنچایاجس نے جو کہا وہ کیا نہیںاور جو کیا، وہ کہا نہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے کپتان نے کہا ”ہمیں شرم آتی ہے کہ دوسرے ملکوں سے یا دوسرے لوگوں سے جا کر بھیک مانگیںاور آئی ایم ایف آئے اور ہمیں بتائے کہ بجلی کی قیمت اتنی بڑھا دو۔ وہ ہمیں حکم کریں کبھی بجلی بڑھا دو، کبھی گیس بڑھا دو، کبھی فلاں چیز بڑھا دو“۔ پھر اقتدار میں آنے کے بعد فرما دیا ”آپ کو خوشخبری سناتا ہوں، اب ہمیں اُمید یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے جب قرضہ لیں گے تو بھی ہمارے اوپر اتنا زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا“۔ یہ بھی خاں صاحب نے ہی فرمایا تھا ”مجھے شرم آتی ہے پاکستانیو! جو نیا پاکستان میں دیکھتا ہوں اُس کے اندر ہم غریب ملکوں کی امداد کریں گے“۔ لیکن صورتِ حال یہ کہ ہم نے کوئی ملک ایسا نہیں چھوڑا جس سے امداد کی بھیک نہ مانگی ہو۔ اِسی آئی ایم ایف سے اُن کڑی شرائط پر قرضہ لیا گیا جن شرائط کو شائد دنیا کا کوئی دوسرا ملک قبول نہ کرتا۔ خاںصاحب درست فرمایا کرتے تھے ”جو قرضہ دیتا ہے وہ آپ کی آزادی لے جاتا ہے، آپ کی عزت چلی جاتی ہے“۔ واقعی آئی ایم ایف نے ہماری آزادی اور عزت سلب کر لی ہے اور ہم اُس کی ہر شرط پر سرِتسلیم خم کرتے جا رہے ہیں۔ یقیناََ اُسی کے حکم پر 9 دسمبر کو روتے پیٹتے عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرا دیا گیا۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت پونے 5 روپے بڑھا دی گئی اور ساتھ یہ حکم بھی صادر فرما دیا کہ اِس بڑھی ہوئی قیمت کا اطلاق اکتوبر 21ءسے ہوگا اور اضافی رقم دسمبر کے بلوں میں وصول کی جائے گی۔
ایسے میں جب وزیرِاعظم فرماتے ہیں ”میں جب تک زندہ ہوں، سیالکوٹ جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونے دوںگا“ تو حوصلہ نہیں بڑھتا بلکہ شرمندگی ہوتی ہے کیونکہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں اُن کی نگاہوں کے سامنے سانحہ سیالکوٹ جیسے کئی واقعات رونما ہوئے لیکن قاتلوں کا عدلیہ کچھ بگاڑ سکی نہ انتظامیہ۔ وزیرِاعظم صاحب نے فرمایا ”ایسا نہیں ہوتا کہ الزام لگانے والے خود ہی جج بن جائیں“ لیکن یہ رسم تو آپ ہی نے ڈالی ہے جناب۔ ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ دھرنے میں کس نے قانون ہاتھ میں لیا؟۔ کس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانِ عبرت بنا دینے کی دھمکیاں دیں؟۔ کِس کے حکم پر وزیرِاعظم ہاو¿س پر حملہ ہوا؟۔ کس کی ایما ءپر پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے گئے؟۔ کس نے پولیس سٹیشن پر حملہ کرکے اپنے کارکُن چھُڑوائے؟۔ کس نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر یوٹیلٹی بِلز جلائے؟۔ کس نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی تلقین کی؟َ اور کس کے حکم پر پی ٹی وی پر قبضہ ہوا؟۔ حیرت ہے کہ اِس سب کے باوجود بابا رحمتے کی نظروں میں صرف آپ ہی صادق وامین۔ قوم مرضِ نسیاں میں مبتلاءنہیں صاحب، اُسے سب ہے یاد ذرا ذرا۔ وزیرِاعظم صاحب! آپ کے مُنہ سے قانون کی عملداری کی بات اِس لیے بھی نہیں جچتی کہ 2014ءکے دھرنے سے پہلے اُس وقت کے وزیرِاعظم میاں نوازشریف 2013ءکے عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کو تحقیقاتی کمیشن بنانے کا کہہ چکے تھے لیکن آپ نے اُسے ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے سیاسی کزن طاہر القادری کی ہمراہی میں جلوس لے کر اسلام آباد کی طرف چل نکلے۔ دھرنے کے خاتمے کے بعد اُسی سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن کا فیصلہ آیا کہ انتخابات شفاف اور عوام کی منشا کے مطابق ہوئے۔ کیا اُس فیصلے کے بعد 126 روزہ دھرنا غیرقانونی نہیں ٹھہرتا؟۔ کیا اُس وقت کے دھرنے میں کیے جانے والے اعلانات آرٹیکل 6 کے زمرے میں نہیں آتے؟۔ اُس دھرنے میں دائرکیے جانے والے مقدمات کا فیصلہ آج تک نہیں آیا۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ اُن دنوں میں عمران خاں ایک طرف تو دہشت گرد کورٹ کے مفرور تھے جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ میں بھی آجا رہے تھے۔ اُنہی دنوں میں خاںصاحب کے حواری کہتے رہتے تھے کہ وہ بنی گالہ میں بیٹھے ہیں، کسی میں ہمت ہے تو اُن کو گرفتار کرلے۔ سچ یہی کہ خاںصاحب کی طرزِ سیاست پر تو پورا تھیسز لکھا جا سکتا ہے کیونکہ تحریکِ انصاف وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے کبھی آئین کی پرواہ کی ہے نہ قانون کی۔
حال ہی میں الیکشن کمیشن نے وزیرِاعظم کو بلدیاتی انتخابات کے دوران پشاور جانے سے منع کیا۔ وزیرِاعظم نے الیکشن کمیشن کے اِس حکم کو جوتے کی نوک پر رکھا اور نہ صرف پشاور گئے بلکہ ”پاکستان کارڈ“ کا اعلان بھی کیا۔ الیکشن رولز کے مطابق وزیرِاعظم چونکہ ایم این اے بھی ہیں اِس لیے وہ بلدیاتی انتخابات کے دوران کسی قسم کا ترقیاتی و رفاحی اعلان نہیں کر سکتے تھے لیکن الیکشن کمیشن کی پرواہ تو اُن کے اعظم سواتی اور فوادچودھری جیسے وزراءبھی نہیں کرتے۔ جب الیکشن کمیشن نے توہینِ عدالت کے کیس میں فوادچودھری اور اعظم سواتی کو طلب کیا تو وزیرِاعظم نے باقی وزراءکو بھی یہ حکم دیا کہ وہ اِن دونوں وزراءکے ساتھ الیکشن کمیشن جائیں تاکہ اُس پر دباو¿ پڑے تو پھر بھلا کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ موجودہ حکومت آئین وقانون کی عملداری پر یقین رکھتی ہے۔ اِس سے پہلے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کو بھی آزادکشمیر کے انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن نے کشمیر سے نکل جانے کا حکم دیا تھالیکن وزیرِاعظم اُسے اپنے ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر آزادکشمیر لے آئے۔ بَدزبان فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم صاحب کے بارے میں جو بدکلامی کی وہ سب کے سامنے ہے۔ ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔