سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے لگاتار تین کالم چھپ چکے ہیں ۔ میں "نئی بات" کے ادارتی عملے کا ممنون ہوں کہ انھوں نے نصف صدی قبل 16دسمبر 1971کو رونما ہونے والے اس عظیم قومی سانحہ کو پوری اہمیت دی ہے۔ میں نے اپنے کالموں میں حتی الوسع کوشش کی کہ اس قومی سانحہ کے اسباب و علل ، اس دور کے معروضی حالات و واقعات اور اس قومی سانحہ سے تعلق رکھنے والی المناک یادوں اور اپنے ذاتی مشاہدات ، تاثرات اور احساسات کو من و عن اور غیر جانبدارانہ انداز میں پیش کر سکوں۔ میں اس میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں یا کامیاب نہیں ہو سکا۔ مجھے اس حوالے سے اپنی کم مائیگی اور عاجزی کا احساس ہے کہ نہ تو میں کوئی بڑا قلم کار ، کالم نگار یا تجزیہ نگار ہوں ، نہ ہی میڈیا کے حلقوں میں میری کوئی ایسی بڑی پہچان ہے ۔ تاہم جو کہتے ہیں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے مصداق میرے بہت سارے مہربانوں اور کرم فرماوں نے جو میری خامہ فرسائی پر نظر ڈالتے رہتے ہیں ، انھوں نے ان کالموں کو پسند ہی نہیں کیا ہے بلکہ اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ نئی نسل کو جو اس قومی سانحہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد پروان چڑھ کر اور جوان ہو کر عملی زندگی میں شامل ہوئی یا اس وقت اپنی تعلیم کی منازل طے کر رہی ہے اسے وطن عزیز کی تاریخ کے اس طرح کے المناک واقعات سے آگاہ رکھنے کے لیے اس طرح کی تحریروں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
خیر یہ سلسلہ کتنا جاری رکھا جا سکتا ہے اور کون اس کو کتنی اہمیت دیتا ہے، اس سے قطع نظر میںاپنے سکول (ایف جی سر سید سکول راولپنڈی) کے زمانے کے انتہائی عزیز اور پیارے شاگرد ڈاکٹر ندیم اکرام جو ماشاءاللہ ہم دوستوں یا احباب کے چند افراد پر مشتمل خصوصی حلقے میں مرکزی حیثیت ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ اپنے شعبہ طب (ڈاکٹر و پیتھالوجسٹ ) سے وابستگی کے ساتھ مطالعے اور لکھنے لکھانے کا شوق بھی رکھتے ہیں نے میرا کالم "سقوط مشرقی پاکستان ۔۔۔ المناک یادیں " پڑھنے کے بعد مجھ سے بہ اصرار اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے اس پہلو کو بھی سامنے آنا چاہیے کہ اردو ادب پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور کیسی کیسی نادر روزگار شخصیات کی نگار شات سامنے آئیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بارے میں کچھ شعراءکے کلام اور نثری تحریروں کے حوالے بھی دیئے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے ان حوالوں کو کالم میں شامل کرکے سقوط مشرقی پاکستان کے بارے میں کچھ دیگر پہلوں کو بھی اجاگر کیا جاسکتاہے۔
مجھے کچھ یاد پڑتا ہے کہ پچھلی صدی کے آخری عشرے یا اس سے قبل کے برسوں میں میں نے اردو کی مشہور ادیبہ ، افسانہ نگار اور ناول نگار محترمہ الطاف فاطمہ مرحومہ کا ناول "چلتا مسافر "پڑھا۔ محترمہ الطاف فاطمہ مرحومہ میری پسندیدہ ادیبہ تھیں ۔ اس سے قبل میں ان کا شہرہ آفاق ناول "دستک نہ دو" پڑھ چکا تھا۔فیروز سنز کے تحت شائع کردہ اس ناول میں انھوں نے یوپی کے ایک نیم جاگیردار مسلمان گھرانے کے حالات و واقعات ، رہن سہن ، خاندانی معاملات ، رنجش و محبت کے تذکرے ،تحریک پاکستان میں اس گھرانے کے کردار اور اسی طرح کی دوسری باتوں کو پیش کیا تھا۔ اس ناول کا شمار بلاشبہ اردو کے ادب عالیہ میں کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ ناول کس حد تک دستیاب ہے یہ مجھے معلوم نہیں۔ لیکن محترمہ الطاف فاطمہ کے دوسرے ناول "چلتا مسافر "جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے کے بارے میں مجھے اپنے ممدوح عزیز شاگرد ڈاکٹر ندیم اکرام نے اپنے پیغام میں بتایا ہے کہ جمہوری پبلیکشن نے حال ہی میںاسے دوبارہ شائع کیا ہے۔ یہ ناول آج سے کوئی اڑھائی تین عشرے قبل میں نے پڑھا تو مجھے اتنا پسند آیا یا اس نے مجھ پراتنا اثر کیا کہ میں نے اسے کئی بار پڑھا ہوگا۔
سچی بات ہے اور اس میں قطعاً کوئی خود نمائی نہیں کہ یہ ناول کتنا ہی عرصہ میرے سرہانے پڑا رہا۔ اور کتنے ہی برخورداران کومیں نے یہ ناول پڑھنے کے لیے کہا۔خود میرا یہ عالم تھا کہ بعض مخدوش ملکی حالات سے میرا دل اداس ہو جاتا تھا یا سخت دل گرفتہ ہوتا تھا تو میں اس ناول کے کسی حصے کو پڑ ھ لیا کرتا تھا ۔ محترمہ الطاف فاطمہ مرحومہ نے جس خوب صورت اور متاثر کن انداز میں اس ناول میں ایک بہاری خاندان (سید مزمل کے گھرانے) کا ذکر کیا ہے اس کے کیا کہنے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ خاندان بہارکے کسی قصبے سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ میں جا کر آباد ہوا۔ سید مزمل نے بہت جلد ڈھاکہ کی مجلسی زندگی میں ایک مقام بنا لیا ۔ بہاری بنگالی بڑے بوڑھے جوان سبھی ان کی دانش بصیرت اور وطن سے ان کی گہرمی محبت کی قدر کرتے تھے۔ اسی خاندان کا نوجوان سید مدثر جو سید مزمل کا بھتیجا تھا وہ تعلیم کی منزلیں طے کرتے کرتے ڈھاکہ یونیورسٹی میں پہنچ گیا وہاں بنگالی نوجوانوں، لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کرنل رینک کے ایک اعلیٰ فوجی افسر کی بیٹی بھی سید مدثر کی ہم جماعت تھی۔ نوجوانوں کا یہ حلقہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خوش خوش دیگر مشاغل میں بھی شریک ہوتا تھا۔ سید مزمل کی عقل و دانش سے گندھی گفتگو انہیں پسند تھی تو اس گھرانے کے کھانے بھی یہ شوق سے کھایاکرتے تھے۔ ہنسی خوشی کے ساتھ دن گزر رہے تھے کہ نہ صرف ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہی بلکہ ڈھاکہ کے گلی کوچوں میں اور پھر پھیلتے پھیلتے پورے مشرقی پاکستان میں تعصب اور نفرت کی ایسی فضا نے جنم لیا کہ بنگالی یعنی فرزند زمین ((Son of Soil غیر بنگالیوں کو جن میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اور بہاری وغیر ہ شامل تھے کو غاصب اور جارح قرار دے کر ان سے نفرت کرنے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ نفرت کے یہ جذبات اس حد تک پھیلے کہ شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی مسلح تنظیم مکتی باہنی کے علیحدگی پسندوں نے غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ سید مزمل کا گھرانہ بھی غیر محفوظ ہو گیا ۔ اسی دوران سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا ۔ سید مزمل کے گھرانے کو ڈھاکہ میں محمد پور کے بہاری کیپ میں منتقل ہونا پڑا ۔سید مزمل کی خواہش تھی کہ سید مدثر کسی طرح مغربی پاکستان پہنچ جائے تو سید مدثر کے ہم جماعت بنگالی نوجوان نے جو سید مزمل سے بڑا متاثر تھا لیکن عوامی لیگ میں شامل ہو چکا تھا نے یہ ذمہ داری اس طرح نبھائی کہ ڈھاکہ سے سید مدثر کو کلکتہ پہنچایا اور کلکتہ سے وہ کھٹمنڈو کے راستے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ ناول کے مطابق وہاں سے اسے ایبٹ آباد میں قائم بہاریوں کے لیے کیمپ میں لے جایا جاتاہے ۔وہاں سے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ حویلیاں ایک کارخانے میں کام کرنے کے لیے روزانہ آتا ہے۔ مرحومہ الطاف فاطمہ کے نزدیک وہ ایک چلتا مسافر ہے جس کا سفر تمام نہیں ہوا ہے۔
محترمہ الطاف فاطمہ کے ناول "چلتا مسافر "کا لب لباب میں نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ناول میں بیان کردہ کچھ حالات و واقعات ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کر ہی ان کا گہرا اثر اور درد محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کو یہیں چھوڑتے ہیں واپس شاگرد عزیز ڈاکٹر ندیم اکرام کی خواہش کی تعمیل کی طرف آتے ہیں ۔ ڈاکٹر ندیم اکرام نے اپنے واٹس ایپ مسیج میں مجھ سے مخاطب ہو کر لکھا ہے ۔"در اصل ایک اور موضوع ہے سقوط مشرقی پاکستان اور اردو ادب۔ میں نے اس موضوع پر آپ کے حوالے سے پڑھناشروع کیا۔ آپ نے سرسید سکول کی لائبریر ی سے مجھے "چلتا مسافر "پڑھنے کو دیا۔ بہت خوب صورت ناول تھا۔ درد میں گندھا ہوا ۔ پھر میں نے کئی لوگوں کو وہ پڑھنے کو دیا۔ اس حوالے سے ایک اور ناول جو مجھے بہت پسند ہے وہ ہے قرة العین حیدر کا "آخرشب کے ہم سفر"، بہت ہی زوردار ناول ہے۔ابھی سلمیٰ علی خان کی خودنوشت "دوپٹہ ڈھاکے کی ململ کا "چھپ کر آئی ہے۔اگر آپ نے اس موضوع پر لکھنا ہی شروع کیا ہے تو اردو ادب پر اس کے اثرات کے حوالے سے اگر علیحدہ کالم ، جہاں ان کتابوں کا اجمالی ذکر اور چند شعراءکا اس حوالے سے کلام (سامنے آ جائے)۔