اسلام آباد : بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر اور نامزد نگران وزیر اعظم انوار الحق سانحہ 9 مئی کے حوالے سے سخت موقف رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے موقف کا اظہار مئی میں کیا تھا ۔نگران وزیر اعظم نامزدگی کےبعد ان کا بیان دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
سانحہ 9 مئی کے بعد 18 مئی کو کوئٹہ میں نیوز کانفرنس کرتے انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ ملک میں انتشار پھیلانے والوں کی ہر قدم پر مذمت اور مزاحمت کریں گے ۔ رکن اسمبلی بننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کے پاس قانون ہاتھ میں لینے کا لائسنس آجاتا ہے 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے ۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ 9 مئی کو سیاسی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائےگا ۔بلوچستان کی سطح پر مذموم مقاصد کی مذمت کرتے ہیں اور اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ بطور بلوچستان کے شہری ہم پاکستان کو علامہ اقبال کے خواب اور قائد کے فرمان کے مطابق بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔
انہوں نے کہا تھا کہ جن عمارتوں پر حملہ کیا گیا وہ پاکستان کی ریاست کا استعارہ تھیں ۔ معمول کے مطابق زندگی ، سیاست اور معاشرتی معاملات کو چلانے کے لئے معاشرے میں امن و استحکام کی اشد ضرورت ہے آج ملک کے سیاست دانوں ، دانشوروں ، سول سوسائٹی کو مستحکم سماجی نظام کے لئے ایک ساتھ آنا ہوگا انتشار ، طوائف الملوکی کانقصان ملک اور معاشرے دنوں کو پہنچ رہا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ رکن اسمبلی بننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کے پاس قانون ہاتھ میں لینے کا لائسنس آجاتا ہے اگر صوبائی وزیر مبین خلجی 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھے تو ان کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے بلوچستان عوامی پارٹی بطور سیاسی جماعت کے صورتحال کو دیکھ رہی ہے ، پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کی جانب گامزن ہورہا ہے ۔
انہوں نے کہا تھا کہ جو لوگ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہیں ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے یہ ریاست کا قانون ہے اور جس بھی معاملے کا تعلق براہ راست فوج سے ہو اس پر کاروائی آرمی ایکٹ کے تحت کی جاتی ہے ۔ 2013 میں بھی فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جس کا مقصد سسٹم کو بہتر کرنا تھا ۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جن لوگوں پر الزامات ہیں وہ کچھ حقائق کی بنیاد پر ہی ہیں کیا ، کور کمانڈر کا گھر نہیں جلایا گیا یا دیگر املاک پر حملہ نہیں ہوا ؟ ۔ ریاست ایک دم سے جواب نہیں دیتی بلکہ برداشت سے کام لیتی ہے لیکن ایک سال میں پی ٹی آئی نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ پی ٹی آئی کس سے آزادی لینا چاہتی تھی ، ایک تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو قبضہ گیری سے جوڑ دیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو یکایک ختم کرنا ممکن نہیں اس کے لئے سیاسی حکمت عملی چاہیے سیاستدانوں کو خود ہی بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ریاست کے فرائض کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کریں ۔