نہر کے کنارے بیٹھے بزرگ میری توجہ کا مرکز تھے،وہ سامنے سکول پر نصب قومی پرچم پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے تھے، اسی اثناء میں بچے ہاتھ میں جھنڈیاں اٹھائے نعرے بلند کرتے گذر رہے تھے،انکی توجہ اب اپنے جانوروں کی بجائے ان بچوں پر تھی، اِنکے چہرے پر خوشی اور غم کے آثار نمایاں تھے،انھوں نے حقے کا کش لگایا ،کھانے کے برتن ایک طرف رکھے اور سستانے کے لئے ابھی دراز ہی ہوئے تھے کہ میری موجودگی نے انکی تنہائی کو توڑ دیا،میں انکی بھیگی آنکھوں کو دیکھ چکا تھا،چہرہ صاف کرتے ہوئے جھٹ سے بولے کہ تم اس وقت کہاں۔بس یونہی گذر رہا تھا، آپ کو دیکھا تو ادھر کو چل دیا۔انھوں نے ایک نظر گائوں پر ڈالی پھر ٹھنڈی آہ بھری ،میں نے پوچھا ،بابا جی کوئی پریشانی ہے،پھیکی مسکراہٹ سے بولے ایسی کوئی بات نہیں، بس ان بچوں کو دیکھ کر ماضی میں کھو گیا تھا، ہجرت کے سارے واقعات میری آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چل گئے،75 سال ہونے کو ہیں، لیکن ہر سال یوم آزادی زخم تازہ کر دیتا ہے، وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے جب خون اور آگ کے دریا کو پار کر کے نہتے لاکھوں انسانوں نے اس نئی مملکت میں قدم رکھے تھے، بے یارو مدد گارلوگ سرکار کے قائم کردہ کیمپوں میں پہنچے تو سجدہ شکر بجا لائے، بابا جی، آپ کو یہ سب یاد ہے اب تک، میری بات نے انکی سوچ کو روک دیا۔گہری سانس لے کر بولے۔ انسان کو یہ کبھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کب ہنسا تھا مگر اپنا رونا اس کو کبھی بھی نہیں بھولتا۔
ماحول میں خاصا سکوت تھا، کچھ پرندے درختوں پر چہچہا رہے تھے، میں نے کہا ،آج اپنی ہجرت کی کہانی ہی سنا دیں،بولے کیوں میرے زخموں کو کریدتے ہو، میں نے کہا کہ میں آپ کے کرب سے آشنا ہوں مگر چاہتا ہوں یہ کہانیاں نسل در نسل منتقل ہوتی رہنی چاہئے تاکہ انھیں بھی یہ احساس جاگزیں رہے کہ کن کن قربانیوں کے بدلے یہ مملکت حاصل کی گئی ہے۔اس نظریہ کی بھی تذکیر لازم ہے، جس کی بنیاد پر یہ ریاست وجود میں آئی،یہ سلسلہ ہمیں ہماری ذمہ داریاں یاد دلاتا رہے گا۔
بابا جی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آپ کے عہد کے لوگوں نے اس نظریہ سے کون سی وفا کی ہے، قائد کے پاکستان کو صرف25سال کے بعد ہی نے دو لخت کر دیا، میں اس روز جی بھر کے کمرہ میں اکیلا اتنا رویا
کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے، کیا قدر کی ارباب اختیار نے ہماری جانوں کے نذرانے کی، بابا جی کی آنکھوں میں اب بھی آنسو تیر رہے تھے، میں نے جیب سے کھجوریں نکال کر پیش کیں، منہ میں ڈالتے ہوئے بولے مجھ سے بڑا بھائی ہجرت کے وقت بیماری کی حالت ہی میں ہم سے جد ا ہوگیا، ہم ہندوہستان کے ایک گائوں میں رہتے تھے یہ مسلمانوں ، سکھوں اور ہندوں کی آبادی پر مشتمل تھا، سب بھائیوں کی طرح رہتے تھے، ہم انکی عبادت گاہ میں جاتے وہ ہماری غمی اور خوشی میں شریک ہوتے، ہم اکٹھے کھیت میں ہل چلاتے وہاں اکٹھے کھانا بھی کھاتے، تمام فیصلے پنچایت میں کئے جاتے تھے، بہت کم ایسا ہوا کہ ہمارے گائوں میں پولیس آئی ہو، بزرگوں کا بڑا احترام تھا، خواتین کی بڑی عزت کی جاتی تھی، اس دور میں بہت سی اچھی اقدار تھی، میں سکول میں پڑھتا تھا، ہمارے اساتذہ مسلم،سکھ اور ہندو تھے، ان میں بڑا اتفاق تھا، اخبار تو پڑھنے کو نہیں ملتا تھا لیکن ہر نئی خبر ہمیں سکول سے ملتی تھی، یا کوئی سرکاری ہرکارہ آتا تو نمبر داراہل دیہہ کو اٹھاتا اور سرکاری فرمان سنایا جاتا، سکول کے اساتذہ سے ہمیں پتہ چلا کہ ہندوہستان کا بٹوارہ ہونے جارہا ہے، میں نے بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ آپ نے اس زمانے میں قائد اعظم کا نام سنا تھا،کہنے لگے کہ ہمارے گائوں میں ریڈیو تھا جب تقسیم ہند کی خبریں آنے لگیں تو بہت سے لوگ چوراہے میں اکٹھے ہو تے اور رات کو خبریں سنتے تھے، اس طرح ہم بھی بزرگوں کے پاس جمع ہو جاتے، جب میں نے سکول چھوڑا تو دسویں جماعت کا طالب علم تھا، اس لئے شعوری طور پر میں ہجرت کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، اسکی یادیں اگرچہ کچھ مدہم ہوگئیں ہیں مگر بہت کچھ یاد ہے، میں بے دردی سے قتل ہونے والی خواتین کے چہروں کو سامنے لاتا ہوں تو رات کو نیند میں میری آنکھ کھل جاتی ہے، میں اپنی بے بس بہن کو کیسے بھول سکتا ہوں ،جو رات کی تاریکی میں کھو گئی پھر زندگی بھر نہ مل سکی، تم کیا جانو کہ کس دکھ اور غم میں ہم نے ابتدائی سال گذارے ہیں، بہت سے بزرگ اپنے پیاروں کی راہ تکتے تکتے اس دنیا سے کوچ کر گئے، بہت سی مائیں اپنی بیٹیوں کو یاد کرے روتی رہتی، انکے ارمان دل ہی میں رہ گئے۔
بابا جی بولے میں بتا رہا تھا کہ ایک گائوں میں سال ہا سال سے اکٹھے رہنے والے سکھ ،ہندو، ہماری جان کے دشمن بن گئے جب انھیں پتہ چلا کہ یہ علاقہ انکے پاس رہے گا اور مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑے گی، آپ ذرا چشم تصور میں لائیں کہ اچانک آپ کو گھر بار چھوڑنے کا کہا جائے، آپ اس حالت میں ہوں کہ چند اشیاء ہی لے کر نکل سکیں اور اگلی منزل کا بھی پتہ نہ ہوتو آپ پر کیا بیتے گی، محض مال و متاع ہی نہیں بلکہ اہل عیال کے ساتھ رخصت ہونا، خواتین اور بچوں کا ساتھ ہونا جب زندگی کے لالے پڑے ہوں ، وہ دن مصیبت بن کر ٹوٹے ۔یہ میری کہانی ہجرت کرنے والے ہر گھر کی کہانی ہے۔
میں نے پوچھا آپکو نئی مملکت کے بارے میں کیا بتایا گیا تھا، بابا جی گویا ہوئے ،یہی کہا جاریا تھا کہ اسلام کے نام پر نیا ملک بننے جارہا ہے، اگر قائد اعظم اسلامی ریاست بنانے کا نہ کہتے تو وہ اتنے بڑے لیڈر نہ بنتے نہ ہی لاکھوں انسان ہجرت کا دکھ اٹھاتے، یہ کھلی حقیقت ہے۔
میں نے کہا باباجی، آج اس ملک کو کہاں دیکھتے ہیں، کہنے لگے ذاتی طور پر تو میں بہت خوش ہوں اللہ تعالیٰ نے اس ملک کی وساطت سے مجھے بہت سی نعمتیں دی ہیں ،جن کا میں ہندوہستان میں تصور بھی نہیں کر سکتا، مسلمان وہاں اکثریت میں ہونے کے باوجود آج بھی بے بس ہیں۔
یاد رکھیں آزادی کی نعمت دنیا کی انمول دولت ہے۔مگر دکھ یہ ہے کہ ارباب اختیار نے آزادی کی قدر نہیں کی، ایسٹ انڈیا کمپنی تو برصغیر میں آئی ہی اس لئے تھی کہ لوٹ مار کرے، وہ تو غاصب تھے ،انھوں نے تو اپنی صنعت کو فروغ دینا تھا وہ ہمیں دبا کر وسائل لوٹ رہے تھے کیا ہماری مقتدر کلاس کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا رویہ اس ملک سے روا رکھے، ملک میں فرقہ واریت، لسانی تعصب، بدعنوانی دیکھتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے،کیا یہ ناشکری نہیں؟میں، قائد اعظم سے بہتر لیڈر کسی کو نہیں سمجھتا ، انکی حیاتی کی پیروی میں سیاستدانوں، بیورو کریسی کا وقار اور ملک کی بقاء ہے، اپنی اصول پسندی کے انمٹ نقوش انھوں نے چھوڑے ہیں۔
ہجرت کی کہانیاں اور قائد کی اصول پسندی، اقبال کا فہم، اور نظریہ پاکستان نسل نو کو پڑھاتے رہنے کی ضرورت ہے۔بابا جی گویا ہوئے کہ حالات نے مجھے مزید پڑھنے نہیں دیا ،تاہم وہ اخبارات کا مطالعہ ذوق سے کرتے رہے ہیں،میڈیا کی وساطت سے وہ باخبر ہیں، سورج کی روشنی میں تپش محسوس ہو رہی تھی، اجازت لینے سے قبل بابا جی سے پوچھا کہ کوئی نصیحت ہی کریں کہنے لگے، نجانے تم سے آخری ملاقات ہو، بس یہ کہ آزادی کی حفاظت کا راستہ صرف خود انحصاری سے عبارت ہے۔