آئی ایس پی آر کے ایک اعلامیہ کے مطابق گزشتہ روز شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میںفوجی قافلے پر خود کش حملے کے نتیجے میں 4 فوجی اہلکار شہید ہو گئے۔ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد سے اس خطے میں کشیدگی بڑھنا شروع ہو گئی ہے اور اس طرح ایک بار پھر سے دہشت گردی کے واقعات معمول بننا شروع ہو گئے ہیں۔ جب سے امریکہ افغانستان سے نکلا ہے اس کو اس خطے میں اڈے چاہئیں اسی چکر میں عمران خان کی حکومت کو بھی جانا پڑا جسے وہ رجیم چینج کا نام دے رہے ہیں اور اب لگتا ہے کہ موجودہ حکومت سے ان کے کچھ معاملات طے پا گئے ہیں، جس کا برملا اظہار افغانستان میں کیاجا رہا ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاک فوج دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لئے پر عزم ہے۔ ہمارے بہادر نوجوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ کبھی ہم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ یہ قربانیاں امریکی جنگ میں شامل ہونے سے قبل نہیں دینی پڑ رہی تھیں۔ عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دہشت گردی کی جنگ ہماری جنگ نہیں ہے۔
ہم نے دیکھا کہ امریکہ اپنے جدید اسلحہ کے زور پر افغان غیور عوام کو جھکانے میں بری طرح ناکام ہوا اورا سی دہشت گردی کی جنگ کا شاخسانہ جس طرح پاکستانی قوم بنی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کا کس طرح سے خون بہایا گیا۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو جارج بش انتظامیہ کی جانب سے " دہشت گردی کے خلاف جنگ" کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی اور دہشت گردی کو روکنے کے عمل کو جنگ سے تعبیر کیا گیا اور نائن الیون کے کے بعد لوگوں میں تحریک پیدا کرنے اور وسائل کے استعمال کے لئے کام کیا گیا جو بالآخر فوجی مداخلت پر منتج ہوئی۔ اس بات کو گوانتانا مو بے اور دیگر مقامات پر تفتیش کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مرضی کی باتین اگلوانے کے طریقۂ کار اور تشدد کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سلوگن اورا س کا تصور بہت بری طرح غلط ثابت ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نظرئیے کی صحیح تشخیص ہو سکی نہ اس کا مٔوثر جواب دیا جا سکا۔ اس صورتحال کے متعدد اسباب ہیں، حالانکہ بہت سے لوگوں کی رائے میں اسٹریٹجک بنیادوں پر جنگ کا اعلان مثبت نتائج کا
حامل نہیں ہو سکتا۔ اس بات کے بھی بہت سے اسباب ہیں کہ اس اصطلاح نے دہشت گردوں کی سرکوبی کے مقصد کو حاصل کرنے کی بجائے اسے کافی نقصان پہنچایا۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ جنگ کی باتوں اور جنگی اقدامات نے مسائل سمجھنے، ان کے ٹھوس اور دیرپا حل تلاش کرنے اور خیالات کو سمجھنے کے عمل کو پسِ منظر میں ڈال دیا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ دہشت گردوں کو جنگجوؤں کا درجہ دینا، ایک ہی آنکھ سے ہر بات کو دیکھنا، گروپوں کو دشمن کا لقب دینا اور سب کو ایک عالمی نیٹ ورک سے منسلک کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے نہ صرف خطرات کو بھی مزید بڑھایا بلکہ مقامی لوگوں کی شکایات میں بھی اضافہ کیا اور مختلف علاقوں، نظریات اور تحاریک سے تعلق رکھنے والوں کو عالمی سطح پر ایک بڑے خطرے سے تعبیر کیا جس کی وجہ سے ہر مسئلے کو ایک الگ انداز میں دیکھ کر حل کرنے کا عمل نہیں کیا جا سکا۔
لگتا ہے کہ ا مریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد ایک بار پھر سے پاکستان کو استعمال کرنے کے درپے ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان نے ماضی میں بھی امریکی آلۂ کار بن کر کیا حاصل کیا۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جب تک اس کا جواب نہیں ملتا ہمیں کسی صورت بھی بیرونی دنیا کی جنگ کا ایندھن نہیں بننا چاہئے۔ ہم نے دیکھا کہ امریکی جنگ میں نیٹو فورسز کا ساتھ دینے پر ہمیں جو بھی امداد ملی اس کا ہمیں کچھ فائدہ نہیں ہوا جب کہ دہشت گردی جنگ میں ہمارا نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے پاکستان کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ عالمی برادری خصوصی طور پرا مریکہ اور اس جنگ میں اس کے حواری ملکوں کو اس نقصان کے ازالے کے لئے پاکستان کی مدد کرنا چاہئے تھی۔ امریکہ اور اتحادی ملکوں کی جانب سے پاکستان کے کردار کی تعریف تو بہت کی جاتی رہی، اس کی مدد کرنے کی حامی بھی بھری جاتی رہی لیکن ان وعدوں کو عملی شکل دینے کے اقدامات نہیں کئے گئے چنانچہ ہمارے ملک کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے گئے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کی وجہ سے پاکستان کو کئی حوالوں سے نقصان اٹھانا پڑا۔ دہشت گرد براہِ راست ہمارے ملک کے اثاثوں، حکام اور عوام کو اپنی بہیمانہ سرگرمیوں کا نشانہ بناتے رہے جس کی وجہ سے نہ صرف لوگوں میں خوف و ہراس بڑھا بلکہ تجارتی، صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور یوں اب ایک وقت آ گیا ہے کہ ہماری معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جو اب ذرہ سی غلطی کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جن کے کہنے پر ہم دہشت گردی کی جنگ میں شریک ہوئے تھے انہی کے زیرِ اثر ادارے قرضہ تک دینے کو تیار نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف غیر ضروری شرائط عائد کرتا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عالمی جنگ میں ہماری غیر مشروط شرکت کی بناء پر ہمارے ملک کو امریکہ اور یورپی ممالک کی منڈیوں میں رسائی مہیا کی جاتی تا کہ ہم دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنی مصنوعات فروخت کر کے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے لیکن ایسا بالکل نہیں کیا گیا اور ہمیں بے یار و مددگار حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اگر امریکہ و یورپ دہشت گردی کے خلاف کوئی نئی حکمتِ عملی ترتیب دے رہے ہیں تو انہیں اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ پاکستان کو اس کے اثرات سے بچایا جایا جانا چاہئے۔ پاکستان کو بھی چاہئے کہ دوبارہ اغیار کی جنگ میں شامل ہونے سے بچے کیونکہ اس کے اثرات سے ابھی تک ہم دوبارہ کھڑے نہیں ہو سکے ہیں۔
عالمی سطح پر دہشت گردی کے اصل اسباب کی کوئی متفقہ تشریح سامنے نہیں آ سکی ہے مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان دہشت گردی کے اصل اسباب کے بارے میں الگ الگ تصورات ہیں۔ مغربی دنیا انتہا پسندوں یا جہادیوں کو اسلام سے منسلک کردیتی ہے۔ ان کے مطابق اسلامی تعلیمات، اسلام اور ماڈرن دنیا میں کشیدگی، آزادیٔ اظہار کی محدود آزادی، مواقع کی کمی، معاشی بحران، سماجی مسائل اور اسلامی دنیا میں جمہوریت کا نہ ہونا لوگوں کو دہشت گردی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ جب کہ مسلم ممالک دہشت گردی کے اصل اسباب کو اسلامی ممالک میں غیر ملکی مغربی مداخلت اور قبضہ، حقِ خود ارادیت دینے سے انکار، برسوں سے حل ہونے والے معاملات اور سیاسی و معاشی محرومیاں نامیدی کو جنم دیتی ہیں۔ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان خیالات و نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی سطح پر بکھرے ہوئے معاملات کے سدھارنے کے لئے اقدام کئے جائیں تا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسائل سے نجات مل سکے۔ پاکستان جیسے ملکوں کو مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ امریکہ کو سمجھنا چاہئے کہ اسلامی دنیا کے حوالے سے اس کی پالیسیاں قیامِ امن اور اسلام اور مغرب کے درمیان خلیج کو بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔