علامہ اقبالؒ کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ مردمومن کاتصور خالصتاََقرآن مجید اور سیرت النبیؐ سے ماخوذہے اورکسی بھی دیگرذرائع سے اس اصطلاح کی تراش محض بدگمانی اور فکراقبالؒ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
عالمی مجلس’’بیداری فکر اقبالؒ‘‘کی ادبی نشست منعقدہ 10 اگست میں طارق شاہین نے ’’نگاہ مردمومن سے(نصف اول)‘‘کے عنوان سے اپنے خطاب میں ابتدائی کلمات کے بعدمولاناجلال الدین رومی ؒکے وہ اشعار پڑھے جن میں وہ کسی اندھیرے میں قیمتی متاع تلاش کرتے ہیں جواستعاراًَمرد مومن کی تلاش سے مستعارہے۔ علامہ اقبالؒ نے ایک مردکامل کاتصوراجاگرکیاہے۔ جب یہ اشعارکہے گئے اس وقت خلافت عثمانیہ دم توڑ رہی تھی اورہندوستان غلامی کی سیاہ چادراوڑھ چکاتھا۔علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں بتایاکہ مردمومن کی تاسیس کاپہلامرحلہ اطاعت،دوسراضبط نفس اورتیسرااورآخری مرحلہ قیادت کاہے۔ شرکاء کے مطابق اقبالؒ نے مرمومن کی اصطلاح قرآن و سنت سے لی ہے مگر قرآن مجیدسے دوری کے باعث آج اقبالؒ کامردمومن مسلمان معاشروں میں نظرنہیں آتا۔ آج مسلمان کواپنی شناخت اوراپنی پہچان کی ضرورت ہے۔ مردمومن کی پہچان تبلیغ ہے۔ مردمومن کی تکمیل ایمان اورعمل دونوں سے ہوتی ہے کیونکہ جہاں ایمان کاذکرہے وہاں عمل
صالح کابھی ذکرموجودہے۔ اقبالؒ کے ہاں مردحق، مردمومن، قلندر، مردخدا، مردان غازی، پراسرار بندے اوراس جیسی دیگر اصطلاحات ایک ہی معانی میں استعمال ہوتی ہیں۔
اقبالؒ کے ہاں بندہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کے لیے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے؟ اعلیٰ ترین نصب العین کے لیے سچی لگن، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزئوں کو پورا کرنے کے لیے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اس کے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔
نطشے ، برگساں اور ارسطو نے بھی مردِ مومن کے تصورات و نظریات پیش کیے۔ نطشے کے مردِ مومن میں تین خصوصیات پائی جاتی ہیں : قوت، فراست اور تکبر۔ ارسطو کا مردِ کامل خیالی انسان کی طرح ہے جسکے اعمال کی تفصیل اور کردار کا خاکہ دستیاب نہیں۔جبکہ اقبالؒ کے افکار میں ’’ مردِ مومن ’’ یا ’’ انسانِ کامل’’ کا ذکر جابجا ملتا ہے۔ اس کے لیے وہ بندہ آفاقی ، بندہِ مومن ، مردِ خدا اور اس قسم کی بہت سے اصلاحات کا استعمال کرتے ہیں۔ حقیقتاً یہ ایک ہستی کے مختلف نام ہیں۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب وکار آفرین ، کار کشا ، کارساز
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اسکے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مرد کامل کی ضرورت ہر دور میں ہر معاشرے کو پڑتی ہے۔ اقبالؒ کے تصور سے مرد کامل کی جو شبہہ عیاں ہے اس کا موازنہ اگر دور حاضر کے انسان سے کریں تو ایک بڑا سوالیہ نشان نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ نظر شرقاً غرباً پھیلے فاصلوں کو طے کر کے بھی نامراد لوٹتی ہے اور طول و عرض کو ناپنا بھی بے سود ثابت ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ''مردِ کامل'' ایک ایسا انسان ہے جو اپنی ذات سے آگاہ ہے، ایک ایسا سمندر ہے جس میں بے پناہ علوم موجزن ہیں اور جس کے جتنا قریب جائیں اتنے ہی آگہی کے دَر وا ہوتے ہیں، اتنے ہی دھندکے پردے چھٹنے لگتے ہیں اور اتنے ہی روشن گوہر ہاتھ لگتے ہیں۔ آسان لفظوں میں اگر کہا جائے تو ''مردِ کامل'' ایک باعمل انسان ہے جو اپنے عمل کے توسط سے تسخیر و فتح کے مراحل طے کرتا ہے کیونکہ فتح و نصرت اس انسان کا مقدر بنتی ہے جو اپنے ارادوں کو عملی صورت میں قیام پذیر کرنا جانتے ہیں۔
ارادوں کی پختگی سے ہی عمل میں مضبوطی آتی ہے اور عمل ہی انسان کو عرش سے فرش اور فرش سے عرش تک لے جاتا ہے۔ اقبالؒ بھی اپنے اس مصرعے میں اسی نکتے کو بیان فرماتے ہیں:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
مگر آج کے انسان میں عمل کا فقدان ہے اور اسی بے عملی کی وجہ سے ماضی کا انسان جو اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچ چکا تھا اور جس میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی صلاحیت تھی۔ آج حال میں بے یارومددگار اور عقلی لحاظ سے نحیف و نزار ہو چکا ہے کیونکہ اس کے فکرونظر اور سوچ کے تمام پیمانے ٹوٹ چکے ہیں آج کے انسان نے خود کو اپنے مقام سے خود ہی نیچے گرا لیا ہے۔
اگر آج کے انسان کو ''مرد کامل'' کے مرتبے پر فائز ہونا ہے اور اس کھوئے ہوئے مقام و مرتبے کو پھر سے پانا ہے تو خود میں فولاد کی سختی اور کردار کی مستی پیدا کرنی ہو گی، اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے ایام کا مرکب نہیں راکب بننا ہوگا۔ ریشم کی نرمی اور شبنم کی ٹھنڈک کو مزاج کاحصہ بنانا ہو گا اور فقر و استغناء کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ مومن کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا، ان تمام اجزاء کو مٹی میں گوندھنے کے بعد اس مٹی سے جو تخلیق ابھرے گی اسے صحیح معنوں میں ''مرد کامل'' کے لقب سے ملقب کیا جائے گا جس کی ضرورت موجودہ حالات میں بہت زیادہ ہے۔