کابل : افغانستان میں امریکا کے انخلا کے بعد طالبان کی پیش قدمی تیزی سے جاری ہے۔ طالبان مغربی صوبے ہرات کے صدر مقام پر بھی قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد 7 دن کے دوران طالبان کے قبضے میں آنے والا 11 واں صوبائی دارالحکومت بن گیا ہے۔
ہرات میں کئی دن سے افعان فوج اور ان کی حمایتی مقامی ملیشیا کی طالبان کے خلاف جھڑپیں جاری تھیں اور جمعرات کو مقامی کونسل کے ایک رکن نے تصدیق کی ہے کہ شہر طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان ایک مرکزی شاہراہ سے فائرنگ کرتے ہوئے گزر رہے ہیں اور پولیس ہیڈکوارٹرز پر طالبان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ طالبان نے گورنر کے آفس پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
اس سے پہلے افغانستان کے وزیر داخلہ جنرل عبد الستار مرزاکوال نے طالبان کو پیچھے دھکیلنے کے حکومتی منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ملک کے بڑے حصوں کو طالبان کے قبضے سے چھڑوانے کے لیے تین مراحل پر مشتمل حکمت عملی پر عمل کر رہی ہے جس کے تحت مقامی 'رضاکار مزاحمت کاروں' کو مسلح کیا جا رہا ہے۔
وزیر داخلہ جنرل عبد الستار نے کہا تھا کہ افغانستان کی افواج بڑی شاہراہوں، شہروں اور سرحدی گزرگاہوں کو طالبان کے قبضے سے آزاد کرانے پر توجہ دے رہی ہیں۔
یاد رہے کہ جمعرات کو ہی سرکاری ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ طالبان جنگجوؤں نے صوبہ غزنی کے صدر مقام پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان کی وزارت داخلہ نے غزنی کے طالبان کے قبضے میں جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دشمنوں نے (شہر کا) کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔‘
صوبائی کونسل کے سربراہ ناصر احمد فقیری نے اے ایف کو بتایا ہے کہ کابل سے قندھار جانے والی سڑک پر واقع غزنی کے گورنر ہاؤس، پولیس ہیڈ کوارٹرز اور جیل پر اس وقت طالبان کا قبضہ ہے۔
ناصر احمد فقیری کے مطابق اگرچہ شہر کے مختلف علاقوں میں لڑائی ابھی بھی جاری ہے تاہم غزنی کا زیادہ تر حصہ طالبان کے زیر اثر آ چکا ہے۔
غزنی سے موصول ہونے والی تصاویر میں طالبان کو اہم سرکاری عمارتوں کے سامنے کھڑے اور انتظام و انصرام سنبھالتے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ گذشتہ ایک ہفتے میں طالبان کے قبضے میں آنے والا دسواں صوبائی دارالحکومت ہے اور اس کا کنٹرول کھونے کے بعد افغان فوج کی دارالحکومت کابل سے شورش زدہ جنوبی علاقوں تک تازہ دستے بھیجنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ طالبان سرِ پُل، سمنگان، قندوز اور جوزجان کے دارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزارِ شریف کے نواحی علاقوں پر بھی قابض ہو چکے ہیں۔