اسلام آباد: آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں حکومت کی جانب سے مہنگے داموں ایل این جی خریدے جانے کے معاملے کی تصدیق ہو گئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بدانتظامی، بری پلاننگ اور غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے مہنگے داموں ایل این جی خریدی گئی جس کی وجہ سے ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ٹرمینلز پوری طرح استعمال نہ کرنے کی وجہ سے 11 ارب روپے سے زائد کی اضافی ادائیگی کرنا پڑی۔
رپورٹ کے مطابق انتظامیہ ملک میں سردیوں کی ڈیمانڈ کے تاریخی رحجان کو مدنظر رکھ سکی اور نہ ہی بین الاقوامی مارکیٹ میں گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر نظر رکھ سکی۔
واضح رہے کہ چند روز قبل عالمی جریدے بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان نے تاریخ کی سب سے مہنگی ایل این جی کی خریداری کی جس میں ستمبر کیلئے ایل این جی کے سودے 15 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو میں طے ہوئے۔
پاکستان نے سپاٹ خریداری کے تحت ستمبر کیلئے ایل این جی کے مہنگے ترین سودے کئے اور ستمبر کیلئے ایل این جی کے چار کارگوز خریدے جائیں گے جن کے تحت فی ایم ایم بی ٹی یو ایل این جی اوسطاً 15.36 ڈالر میں پڑے گی۔
وزارت توانائی کے ذرائع کے مطابق ستمبر کیلئے تین ایل این جی کارگوز عالمی کمپنی گنور اور ایک پٹرو چائنا سے خریدا جائے گا، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے 6 سے 7 ستمبر کو سپلائی کیلئے ایل این جی کارگو 15.39 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو میں خریدا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ 12 سے 13ستمبر کی سپلائی کیلئے ایل این جی کارگو 15.49 ڈالر، 17 سے 18ستمبر کی سپلائی کیلئے سودا 15.39 ڈالر اور 27 سے 28 ستمبر کی سپلائی کیلئے خریداری 15.19 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو میں کی گئی ہے۔