اپنے گزشتہ کالم میں دنیا کے کچھ خوبصورت ممالک میں جاپان کا بطور خاص میں نے ذکر کیا تھا، گزشتہ برس جاپان میں اپنے تین ہفتے کے قیام کے دوران جاپان کی خوبصورتی اور جاپانیوں کی اخلاقی خوبصورتی کو میں نے بہت قریب سے دیکھا، جاپان کے بارے میں سنا بہت کچھ تھا، جاپان جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ’’قوم ‘‘ کسے کہتے ہیں، میں گزشتہ پچیس برسوں سے ’’شوق آوارگی‘‘ میں مبتلا ہوں ، دنیا کے چالیس سے زیادہ ممالک کی سیاحت کرچکا ہوں، جاپان پہلی بار گیا، سُناتھا جاپان کا ویزہ مشکل سے ملتا ہے، میں چونکہ مشکل کام کرنے کا عادی نہیں لہٰذا جاپان کے ویزے کے لیے میں نے کبھی اپلائی ہی نہیں کیا، میرے عزیز بھائی افضل چیمہ کا جاپان میں گاڑیوں کا وسیع کاروبار ہے، وہ جب بھی مجھے جاپان آنے کی دعوت دیتے میں یہ سوچ کر اُن سے معذرت کرلیتا کہ ویزہ تو مجھے ملنا نہیں، پاکستانیوں کو جاپان کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے رکاوٹ کا سامنا شاید اِس لیے بھی کرنا پڑتا ہے جاپان میں کوئی جھوٹ نہیں بولتا اور پاکستان میں کوئی سچ نہیں بولتا، چنانچہ جاپان کے ویزے کے حصول کی درخواست میں جو جھوٹ لکھے جاتے ہیں وہ پکڑے جاتے ہیں، اور یوں ویزے کی درخواست مسترد کردی جاتی ہے، …مگر اب دوتین برسوں سے جاپان نے پاکستانیوں کے ویزے میں کچھ نرمی کررکھی ہے، دنیا کورونا کی آفت کا شکار نہ ہوتی اِس وقت جاپان جانے کے ہزاروں خواہش مند پاکستانی جاپان دیکھ آئے ہوتے، جاپان کی جانب سے پاکستانیوں کے لیے ویزے میں کچھ نرمی کی دیگر وجوہات بھی ہوں گی، سب سے بڑی وجہ جاپان جاکر جو میں جان سکا وہ یہ تھی جاپان میں پاکستان کے سفیر امتیاز احمد خان فارن سروس کے انتہائی سینئر ایک انتہائی محنتی افسر ہیں، اُنہوں نے جاپان میں اپنے ملک کا نام اور امیج کچھ اِس انداز میں روشن کیا پاکستانیوں کو جاپان کا ویزہ حاصل کرنے میں آسانی ہوگئی اُن کی سروس کا زیادہ عرصہ جاپان میں گزرا سو شکل وصورت سے بھی وہ اب باقاعدہ جاپانی ہی لگتے ہیں، … یہ بھی شاید جاپان میں بہت عرصہ گزارنے کا ہی ایک نتیجہ ہے ہمارے اکثر افسران میں جو روایتی ’’جھوٹ چالاکیاں‘‘ ہوتی ہیں وہ اُن میں نہیں ہیں، وہ سیدھے سادے سے انسان ہیں، جاپان میں مختلف حوالوں سے اپنے ملک اور اپنی حکومت کا نام ہمہ وقت روشن کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اُن کی کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں، کیونکہ یہ کوششیں وہ نیک نیتی سے کرتے ہیں، جاپان میں مقیم ہزاروں پاکستانیوں کو اُن کی اِن کوششوں کا ہمیشہ فائدہ ہی ہوا۔ جیسے اُوپر میں نے عرض کیا گزشتہ دوتین برسوں سے پاکستانیوں کے لیے جاپان کا ویزہ حاصل کرنا قدرے آسان ہوگیا ہے۔ اپنے ملک کے مثبت پہلوئوں کو اُنہوں نے اِس خوبصورت انداز میں اُجاگر کیا جاپان کا پاکستان پر اعتماد بڑھ گیا، برادرم افضل چیمہ اور جاپان میں مقیم دوسرے بیسیوں دوستوں سے میں نے اُن کا بہت ذکر خیر سنا تھا۔ میرے ایف سی کالج کے شاگرد عزیز علی سہیل ورک اُنہیں باقاعدہ اپنا ’’پیر‘‘ مانتے ہیں، پھر یہ ہوا جاپان میں جتنے دن میں نے اُن کی صحبت میں گزارے میں نے بھی اُنہیں اپنا ’’پیر‘‘ ماننا شروع کردیا، یہ شاید پیر کا روز تھا، وہ مگر اورہی طرح کے ’’پیر‘‘ ہیں، وہ ’’نذرانے‘‘ لیتے نہیں، محبتوں اور عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں، وہ اپنے ہاتھ نہیں چومواتے، نہ اپنے گٹے گوڈوں میں کسی کو بیٹھنے دیتے ہیں، سو وہ روایتی نہیں اصلی پیر ہیں جن کے پاس فیض بھی اصلی ہے، اور وہ فیض یہ ہے اُن کی تربیت میں رہ کر بڑے سے بڑا متکبر انسان عاجزی اختیار کرلیتا ہے، مزاج اتنا دھیما کوئی بات کررہے ہوں کان جب تک اُن کے منہ کے قریب نہ لے جایا جائے بات سمجھ میں ہی نہیں آتی، اپنے کام، اپنی دُھن کے اتنے پکے ہیں صرف جاپان میں مقیم پاکستانیوں کے ہی نہیں جاپانیوں کے دل بھی اِس انداز میں اُنہوں نے جیت رکھے ہیں کہ جاپانی اُنہیں پاکستانی سمجھنے کے بجائے جاپانی ہی سمجھتے ہیں، جاپان میں مقیم تمام پاکستانی ٹوکیو میں اپنے سفارتخانے کو باقاعدہ اپنا گھر سمجھتے ہیں، اپنے کسی مسئلے کے لیے پاکستانی سفارتخانے کے کسی افسر خصوصاً پاکستانی سفیر امتیاز احمد خان اور کونسلر افسر سمیراحمد خان کو آدھی رات کو بھی فون کریں شاید ہی کبھی ایسے ہوا ہو اُنہوں نے کال اٹینڈ نہ کی ہو، … جاپان میں مقیم بیسیوں پاکستانی دوستوں نے یہ بھی مجھے بتایا کورونا کے سخت ترین دنوں میں بھی سفارتخانہ ایک روز کے لیے بھی بند نہیں ہوا، بلکہ سفارتخانے کا وقت بڑھا دیا گیا، سفارتخانے کی کوششوں سے ڈیڈ باڈیز کی ٹرانسپوٹیشن کمپنی نے پاکستانیوں کو جو ڈسکائونٹ دیا وہ دنیاکے ایک سو پچاس سے زائد سفارتخانوں میں سے کسی اور کو نہیں دیا … جاپان کے کچھ طلبہ کو اُردو زبان سیکھنے کے لیے اور دیگر ریسرچ وغیرہ کے لیے پاکستانی ویزے کے اجراء میں مختلف رکاوٹوں وتاخیر کا سامنا تھا، اُن کے لیے ویزے کاحصول آسان بنادیا گیا، سو اب تک کئی طلبہ اپنے ریسرچ ورک کے لیے پاکستان جاچکے ہیں ،کورونا کے سخت ترین دنوں میں جاپان میں مقیم ایسے پاکستانی جو بے روزگار ودیگر مسائل کا شکار تھے اُن کی ہرممکن مدد کی گئی، اُن میں راشن تقسیم کئے گئے، اِس ضمن میں قابلِ قدربات یہ ہے سفیر صاحب نے یاسفارتخانے کے کسی بھی افسر نے کسی مستحق کے ساتھ تصویر بنواکر اپنے اِس ’’فرض‘‘ کی تشہیریا نمائش کرنا پسند نہیں کیا، جیسے ہمارے اکثر افسران یا حکمران اِس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ جب تک وہ اپنی نیکی کی نمائش نہیں کریں گے اُن کی نیکی اللہ قبول نہیں کرے گا، …جاپان میں پاکستانی اپنے اصلی فرائض کے مطابق جو کچھ کررہا ہے یہ تفصیلات صرف ایک کالم میں نہیں سما سکتیں، یہ سب میں اپنے سفرنامے’’ جاپانستان‘‘ میں عرض کروں گا، … جناب امتیاز احمد خان کی کچھ باتوں سے مجھے اختلاف بھی ہے۔ چونکہ اختلاف کرنے کا حق اُسی کو ہوتا ہے جو اتفاق بھی کرتا ہو، سو اختلاف کے باوجود کبھی کبھی میں اُن کی اِس بات سے اتفاق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان پاکستان کے نیک نیت ترین حکمران ہیں اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خارجی امور میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں، … میری معلومات کے مطابق امتیاز احمد خان کی ریٹائرمنٹ میں تھوڑا عرصہ ہی اب باقی رہ گیا ہے، ہماری مخصوص ذہنیت کے مطابق جب کسی کی ریٹائرمنٹ قریب ہو اُس کے حاسدین ’’موسمی کیڑوں‘‘ کی طرح باہر نکل آتے ہیں۔ دعا ہے اللہ اِن ’’موسمی کیڑوں‘‘ سے اُنہیں محفوظ رکھے !!