برطانیہ کے معروف مصنف اور تحقیق کار مائیکل باربر جریدے دی اکانومسٹ کی رپورٹ، گیلپ سروے اور امریکی ادارے گلوبل اسٹرٹیجک پارٹنرز ورلڈ بینک سمیت عالمی ادارے شہباز شریف کی کارکردگی کو سراہتے ہیں ۔شہباز شریف ایسے لیڈر ہیں جو حالات کو بہتر کر سکتے ہیں ۔ملک کو موجودہ بحرانوں اور چیلنجوں سے نکال سکتے ہیں ۔برطانیہ کے جریدے دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کے دور حکومت میں پنجاب نے جس طرح تیز رفتاری کے ساتھ تعلیمی شعبے میں اقدامات اٹھائے گئے اسے دنیا کے لئے مثال قرار دیا گیا تھا۔امریکی ادارے گلوبل اسٹرٹیجک پارٹنر نے لیڈ ر شپ کے حوالے سے شہباز شریف کو بہترین ویژنری قرار دیا تھا ۔چین ،ترکی،یورپ سمیت امریکا میں بھی شہباز شریف کی کارکردگی کو سراہا جاتا ہے جو پاکستانی قوم کے لئے اعزاز کی بات ہے جس طرح عالمی اداروں کے سروے اور برطانیہ کے معروف مصنف نے اپنی کتاب میں بھی شہباز شریف کی کارکردگی کو بہترین قرار دیا ہے ۔قوم کی اکثریت سمجھتی ہے کہ محمد شہباز شریف ملک کی معیشت کو ٹھیک کر سکتے ہیں ۔مہنگائی ،بیروزگاری کے خاتمے کے لئے جامع پروگرام رکھتے ہیں ۔ان کے ساتھ ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے ایک بہترین معاشی ٹیم بھی ہے ۔شہباز شریف کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ بحیثیت خادم اعلیٰ بیس گھنٹے کام کرتے تھے ۔ڈاکٹروں کی طرف آرام کے مشورے کو بھی نظر انداز کرتے تھے ۔قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کام ،کام اور بس کام کرتے تھے ۔
معروف تحقیق کار مائیکل باربر نے اپنی کتاب Accomplishmentمیں باب بلڈنگ لیڈر شپ میں شہباز شریف کی کارکردگی کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کی اگر آپ تحقیق کریں تو کوئی آپ کو فرشتہ نہیں ملے گا لیکن شہباز شریف ایک ایسا سیاستدان ہے جو ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے اور اس کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ غریب لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنجاب کے عوام کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی ہیں ۔مصنف کے مطابق 2008ء میں جب پاکستان میں جمہوریت واپس ہوئی تو پنجاب کو زیادہ چیلنج درپیش تھے جس میں صحت ،تعلیم،ٹرانسپورٹ،بجلی اور پانی کی سپلائی شامل تھی کیونکہ پنجاب کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور زراعت کی پیداوار زیادہ نہیں ہے اور بڑے پیمانے پر غیر معیاری انفراسٹرکچر بھی قائم کیا جارہا ہے ۔لاہور جیسے خوبصورت شہر کے لئے دہشت گردی بھی ایک بڑا مسئلہ تھا ۔اگر یہ تمام مسائل نہ بھی ہوتے تو حکومتی بیوروکریسی جو تمام پاکستان میں کرپٹ اور بیکار ہے ۔تمام لوگ زیادہ کام نہیں کرتے ہیں اور مصنف کے مطابق انہیں یاد ہے کہ بہت سے کلرکس اپنے ڈیسکوں پر سوتے رہے ہیں ۔بیس فیصد اساتذہ پنجاب میں سکول نہیں جاتے اور ویکسین کی مہم بھی بہت اچھی نہیں تھی ۔ان حالات میں کس کو موردالزام ٹھہرایا جائے ۔شہباز شریف نے کبھی کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا بلکہ اس کے بجائے انہوں نے کام شروع کر دیا اور لیڈر شپ کا وہ معیار سیٹ کیا کہ انہوں نے موجودہ چیلنج کو نا صرف قبول کیا بلکہ اس پر عملدرآمد بھی شروع کیا ۔میری پہلی ملاقات نواز شریف سے 2010ء میں ہوئی اور شہباز شریف کے ساتھ پنجاب میں ہم نے تعلیم کے حوالے سے جو ظالمانہ حقیقت ہے وہ ان کے سامنے رکھی ۔شہباز شریف نے جونہی ڈیٹا دیکھا تو وہ بہت پریشان ہو گئے اور انہوں نے اس وقت حکام سے کہا کہ آیا یہ درست ہے تما م اعلیٰ حکام خاموش رہے اور نیچے دیکھتے رہے انہوں نے دوبارہ پوچھا کہ آیا یہ درست ہے اور آخر میں خود میں نے مداخلت کی کہ ہاں یہ درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اب اس کے بارے میں کیا کریں ۔شہباز شریف نے سیدھے ہی ہم سے کہا کہ ایک آسان منصوبہ سامنے لایا جائے اور تعلیمی نظام کے لئے جلد کام شرو ع کیا جائے ۔راستے میں مجھے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ آپ کو لوگوں کو وہ کام نہیں بتانا چاہیے جو وہ سننا نہیں چاہتے ہیں ۔شہباز شریف نا صرف خود سخت کام کرنے کے عادی ہیں بلکہ انہوں نے ہمیشہ مکاری کو مسترد کر دیا اور اکثر دغا بازی اور دھوکے پر غصے میں آجاتے ۔میری برطانوی آنکھوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے کام سے مخلص ہیں اور کام کرنا چاہتے ہیں ۔2011ء سے 2014ء تک میں نے انہیں بے پناہ کام کرتے ہوئے دیکھا اور انہوں نے اپنی لیڈر شپ کو استعمال کیا اور جو حکام کام نہیں کرتے تھے انہیں اپنے عہدوں سے ہٹایا ۔ایک دفعہ ہم نے اعلیٰ حکام کے ساتھ جنوبی پنجاب میں ایک میٹنگ رکھی جو سکول کے داخلے او ر حاضری کے حوالے سے تھی شہباز شریف نے اسی میٹنگ کے دوران سیکرٹری سکول اور ایک اور عہدیدار کو فوری طور پر معطل کر دیا اور اسی میٹنگ کے اندر ہی نیا سیکرٹری تعینات کر دیا اور پھر حکام سے کہا کہ جو کام نہیں کرتے ہیں انہیں بحر عرب میں پھینک دو ۔شہباز شریف کے حوالے سے غیر ملکی مصنفین کے ان خیالات کے باوجود انہیں مسلسل نشانہ بنانا اور ان سے کام نہ لینا اس قوم کی بد قسمتی ہے اور شہباز شریف کے حوالے سے غیر ملکی اور برطانوی مصنفین کا یہ اعتراف کہ انہیں زندگی میں دو سیاستدانوں ایک برطانوی سیاستدان مارک ملی اور دوسرے شہباز شریف نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔