یوں تو اگست 2018ء میں عمران حکومت کے برسراقتدار آنے کے ساتھ ہی حکمران طبقے کی نا اہلی ،بُری حکمرانی اور ضد نفرت اور انتقامی رویوں کی وجہ سے عوام، ملک و قوم اور ریاستی اداروں کی جو درگت بننا شروع ہوئی وہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے اور ایسا نہیں ہے جسے آسانی کے ساتھ بھُلایا جا سکے۔ تاہم پچھلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران جب سے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا ذکر شروع ہوا اور 8مارچ کو تحریک عدمِ اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی تو اس کے بعد عمران حکومت نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جو غیر آئینی ، غیر قانونی اور جمہوریت کش اقدامات کئے، انتہائی بے شرمی، ڈھٹائی اور ضد سے آئین ِ پاکستان کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے اور فسطائی ہتھکنڈوں سے ملک و قوم کے مستقبل، بیرونِ ممالک سے پاکستان کے تعلقات، اس کے ریاستی اداروں کی حرمت اور تحفظ اورآئین و قانون کی پاسداری، پارلیمنٹ کی بالادستی اور وفاقِ پاکستان کے تقاضوں کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ اتنا ہمہ جہت اور ناقابلِ تلافی ہے کہ برسوں بلکہ عشروں اس کا مداوا نہیں ہو سکے گا۔
اتوار 3اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔ ایوان میں تحریک انصاف کے 23منحرف ارکان کو چھوڑ کر اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 176ارکانِ قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے موجود تھے۔ یقینی دکھائی دے رہا تھا کہ تحریک عدمِ اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہوگی لیکن وہ جو عمران خان اور شیخ رشید احمد اور چودھری فواد حسین جیسے اُن کے قریبی ساتھی آخری وقت میں عمران خان کی طرف سے ترپ کا کوئی پتہ پھینکنے اور سرپرائز دینے کے اعلان اور دعوے کر رہے تھے ، اُن پر عمل کرنے کا منظر سامنے آگیا۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی جناب قاسم سوری نے ایوان کے کسٹوڈین کا کردار ادا کرنے کے بجائے جانبدار ہونے کا ثبوت دیا اور تحریک عدمِ اعتماد پر ووٹنگ کی بجائے ملی بھگت سے پہلے سے ترتیب دیئے شرمناک کھیل پر عمل درآمد کی راہ اپنائی۔ انھوں نے چودھری فواد حسین کے پوائنٹ آف آرڈر کو بنیاد بناتے ہوئے تحریکِ عدمِ اعتماد کو مسترد کرنے کی غیر آئینی رولنگ ہی نہ دی بلکہ قومی اسمبلی کا اجلاس بھی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ ڈپٹی سپیکر کی طرف سے تحریک عدمِ اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ سامنے آنے کی دیر تھی کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو اپنے پہلے سے تیار کردہ منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا موقع مل گیا۔ فوری طور پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وفاقی کابینہ برخاست کرنے کی سمری ایوانِ صدر بھیجی گئی اور چند ہی منٹوں میں صدرِ مملکت جناب عارف علوی نے وزیرِ اعظم کے ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وفاقی کابینہ ختم کرنے کے آرڈر جاری کر دیئے تاہم عمران خان کو بطورِ وزیرِ اعظم کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
یہ سب کچھ اتنا اچانک ، غیر معمولی اور آئین و قانون کی پامالی کے مترادف تھا کہ اتوار چھٹی کا دن ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے اس کا فی الفور از خود نوٹس لے لیا۔ اگلے دن 4اپریل سے چیف جسٹس جناب عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے از خود نوٹس کی سماعت شروع کر دی جو 7اپریل تک جاری رہی۔ جمعرات 7اپریل کو از خود نوٹس کی سماعت مکمل ہوئی۔ رات تقریباً 8:30بجے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے پانچ رکنی لارجر بنچ کا متفقہ فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی تحریک عدمِ اعتماد مسترد کرنے کی رولنگ کو ہی غیر قانونی نہ قرار دیا بلکہ اس رولنگ کے بعد وزیرِ اعظم کے ایڈوائس پر صدرِ مملکت کی طرف سے کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ فیصلے میں واضح طور پر حکم دے دیا گیا کہ ہفتہ 9اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد کرکے تحریکِ عدمِ اعتماد پر گنتی کے عمل کو مکمل کیا جائے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئے قائدِ ایوان کے چناؤ تک اجلاس جاری رکھا جائے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے اس دو ٹوک اور انتہائی واضح فیصلے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی اس پر عمل درآمد کی صاف ستھری، بدنیتی سے پاک، دو ٹوک راہ اپناتے اور تحریک عدم اعتماد پر گنتی مکمل کرکے اس کے نتیجے کے مطابق معاملات کو آگے لے کر چلتے ۔ اس کی بجائے انھوں نے جو راہ اپنائی وہ جہاں آئین و قانون اور سپریم کورٹ کے 7اپریل کے واضح اور دو ٹوک فیصلے کے منافی تھی وہاں انتہائی شرمناک اور خطرناک کھیل کی بھی عکاسی کر رہی تھی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوا تو ہر کسی کا دھیان اور نظریں اس طرف لگی ہوئی تھیں کہ جناب سپیکر کب تحریک عدمِ اعتماد پر رائے شماری کا حکم دیتے ہیں۔ انھوں نے اگرچہ میاں شہباز شریف کے پوائنٹ آف آرڈر کے جواب میں واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر من و عن عمل کریں گے لیکن اس کی بجائے انھوں نے اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس کو بار بار ملتوی کرنے اور مختلف حکومتی وزراء کو طویل تقریریں کرنے کی اجازت دیتے ہوئے حتی الوسع یہ کوشش جاری رکھی کہ آج کا دن گزر جائے اور تحریک عدم اعتماد پر گنتی کا عمل مکمل نہ ہو سکے۔ انھوں نے پچھلی رات کو اپوزیشن جماعتوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کیے گئے اپنے اس وعدے کہ 8بجے تحریک عدم اعتماد پر گنتی کا عمل شروع کر دیا جائے گا کی بھی پروا نہ کی۔ اس کی بجائے سپیکر اپنی کرسی چھوڑ کر غائب ہو چکے تھے۔ اجلاس نمازِ عشاء اور تراویح کے لیے ملتوی ہو چکا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا ۔ اس دوران وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے کابینہ کے خصوصی اجلاس کے انعقاد کی خبر بھی آچکی تھی۔ 9اپریل کے دن کے پورا ہونے کے اوقات میں ہر لمحے کمی آ رہی تھی۔ اجلاس تاخیر کا شکار تھا اور ایوانِ پارلیمنٹ سے کچھ فاصلے پر وزیرِ اعظم ہاؤس میں ترپ کے آخری پتے کھیلنے اور ملک و قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کا عمل جاری تھا۔ میڈیا میں طرح طرح کی خبروں اور افواہوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایک افواہ نما خبر ہر طرف پھیل چکی تھی کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک مقتدر ریاستی ادارے کے سربراہ کو برطرف کرنے اور ان کی جگہ نئے سربراہ کے تقرر کا فیصلہ ہی نہیں کر لیا ہے بلکہ مطلوبہ نوٹیفیکشن بھی تیار ہو گئے ہیں۔ یہ خبر تیزی سے گشت کر رہی تھی تو اس کے ساتھ یہ اطلاعات بھی پھیلنے لگنی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے گیٹ کھول دیئے گئے ہیں اور ہر دو اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان ضروری عملے کے ساتھ اپنی اپنی عدالتوں میں پہنچ چکے ہیں اس کے ساتھ اسلام آباد شاہراہِ دستور پر کچھ فوجی گاڑیوں کے رواں دواں ہونے کے مناظر بھی ٹی وی سکرینوں پر دکھائی دینے لگنے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس التوا کا شکار تھا، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے بارے میں اطلاع آئی کہ انھیں وزیرِ اعظم عمران خان نے طلب کر رکھا ہے اور انھیں اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا کہہ رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا کھیل اور کتنا خطرناک اور شرمناک کھیل کھیلا جار رہا تھا اس کی تفصیل سامنے آتی رہے گی۔ ادھر 9اپریل کے دن کے ختم ہونے میں آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت رہ گیا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی ہال میں اپنی نشست پر آکر براجمان ہوئے۔ انھوں نے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے منافی وہ خط ہے جس میں پاکستان کی حکومت کو دی جانے والی امریکی دھمکی کا ذکر ہے۔ میں اس کی کاپی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی بھیجوں گا ۔ ساتھ ہی انھوں نے تحریک انصاف اور عمران خان سے اپنی دیرینہ وابستگی اور وفاداری کا ذکر کرتے ہوئے سپیکر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور اجلاس کی صدارت کے لیے پینل آف چیئر مین کے رُکن سردار ایاز صادق کا نام پکارا۔ سردار ایاز صادق نے سپیکر کی نشست سنبھالی تو 9اپریل کے انتہائی کٹھن اور صبر آزما لیکن یادگار دن کے گزرنے اور 1973ء کے آئین کی 10اپریل کو منظور ی کے تاریخی دن کا آغازہونے میں چند منٹ ہی رہ گئے تھے۔ سردار ایاز صادق کی صدارت میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا عمل شروع ہوا اور تحریک عدم اعتماد کے حق میں 174ووٹ پڑے اور یہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ عمران خان کی حکومت کا اختتام ہوا اور اُنھیں انتہائی مایوسی اور نامرادی کے عالم میں وزیرِ اعظم ہاؤس چھوڑنا پڑا۔ تحریک عدم اعتماد کو ٹالنے اور اس پر رائے شماری نہ ہونے دینے کے حوالے سے وزیرِ اعظم ہاؤس میں جو ناٹک رچایا گیا اور جو شرمنا ک اور خطرناک کھیل کھیلا گیا اس کی تفصیلات وقت کے ساتھ آئینگی تو بہت سارے کردار اپنے اصلی روپ میں ہمارے سامنے آجائیں گے۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو قومی اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کا عمل جاری ہے اور اُمید واثق ہے کہ جناب میاں شہباز شریف کامیابی سے ہمکنار ہونگے۔