امریکیوں نے حکومت کو دھمکانے کی کوشش کی اور پورے زور سے کی اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا ہر اس حکومت کے ساتھ ہوا جس نے امریکہ سے آنکھ اٹھا کر بات کرنے کی کوشش کی۔پہلے جب بھی ایسا ہوا ہماری حکومتیں خاموشی سے اس بات کو پی گئیں اور کئی بار تو ان کے آگے سجدہ ریز بھی ہوگئیں اور پاؤں چھو کر معافی مانگی۔ اس دفعہ عمران خان نے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس دھمکی کو عوامی سطح پربھی آشکارا کر دیا جو امریکہ کے لیے حیرت سے کم نہ تھا۔اگر کوئی اور حکومت ہوتی، تو ایسا نہ کرتی بلکہ ایسا کرنے کی جرأت بھی نہ کرتی بلکہ ان کے پاؤں چاٹنے کی بھی کوشش بسیار کرتی۔دوسری بات امریکیوں کو اس کی توقع نہ تھی کہ اس بار ایسا ردّ عمل بھی ہوگا۔ عدمِ اعتماد کی تحریک اور اس دھمکی میں براہ راست تعلق ہے اگرچہ کچھ ہی افراد اس دھمکی سے واقف اور اس پر خوش تھے لیکن زیادہ تر وہ ہیں جو حبِ علی کے بجائے بغضِ معاویہ میں آگے بڑھے اور امریکیوں کو خوش کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اس معاملے میں تقسیم تھی جسے غیر جانبداری کا عنوان دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی دراصل عمران خان کو قومی غیرت پر اڑے رہنے عقیدہ ختم نبوت کا پرچار کرنے اور اس پر اڑے رہنے کی سزا دی گئی ہے۔اب آتے ہیں دوسرے پہلو کی طرف جو عمران خان کی حکومت کو گرانے کا باعث بنا۔عمران خان کی نادانی کی وجہ سے قوم کو یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ وہی پرانے چہرے وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم بننے کی تیاریوں میں ہیں۔ اگر عمران خان میں تبدیلی کی قوت استعداد موجود نہ تھی تو انہوں نے قوم کا وقت ضائع کیوں کیا ؟ ایک بڑی آبادی والا صوبہ، ایک سادہ سی صلاحیت اور لیاقت والے عثمان بزدار کے حوالے کیوں کئے رکھا ؟ جن کی ناقص کارکردگی نے نون لیگ کی سابقہ لوٹ مار پر پردہ ڈال دیا اور وہ شیر بن کر سامنے آ گئے ہیں اور عدم اعتماد کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔عمران خان کو اب یقین کر لینا چاہئے کہ انکی اہلیت اور صلاحیت اتنی اعلی لیول کی نہیں ہے کہ اس کرپٹ نظام میں رہتے ہوئے ملک کو معاشی، سیاسی اور آئینی بحرانوں سے نکال سکیں ...! چڑیاں کھیت چگ چکی ہیں، سانپ آگے بڑھ چکا ہے اب سوائے لاٹھی پیٹنے کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے. یہ وقت ہے کہ وہ اشرافیہ کے مفادات کے محافظ نظام سے بغاوت کریں اور نئے پاکستان دوست نظام کی جدوجہد کے لیے چہرے بدلیں اور اپنے وژن کو عوام اور اس کی حالت کے مطابق کریں۔میں عمران خان کے وژن کو ایک خوبصورت مثال سے واضح کرتا ہوں۔ایک شادی شدہ جوڑے کے گھر کے سامنے نئے پڑوسی آئے۔ ان کی کھڑکی سے نئے پڑوسیوں کا گھر صاف دکھائی پڑتا تھا۔ یہ شادی شدہ جوڑے کی عورت اپنے ہمسائیوں کی ہر چھوٹی چھوٹی بات کو کھڑکی سے نوٹ کرتی اور اپنے شوہر سے شیئر کرتی۔ ایک دن جب وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے تو بیوی نے کھڑکی میں سے دیکھا کہ سامنے والوں نے کپڑے دھو کر پھیلائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کتنے خراب اور
گندے کپڑے دھوتے ہیں ’’بیوی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اپنے شوہر سے بولی ذرا صاف کپڑے نہیں دھلے۔ ان کی خواتین کو کپڑے دھونے آتے ہی نہیں ہیں۔ ان کو چاہیے کہ اپنا صابن تبدیل کر لیں، یا کم از کم کسی سے سیکھ ہی لیں کہ کپڑے کس طرح دھوئے جاتے ہیں ۔ شوہر نے نظریں اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا۔ زیر لب مسکرا کر پھر ناشتہ کرنے میں مشغول ہو گیا اسی طرح ہر بار جب بھی ان کے پڑوسی کپڑے دھو کر پھیلاتے، اس عورت کے ان کے کپڑوں اور دھلائی کے بارے میں یہی تاثرات ہوتے۔ وہ ہمیشہ ہی اپنے شوہر کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتی کہ آج پھر ان لوگوں نے کپڑے اچھے نہیں دھوئے، دل چاہتا ہے
خود جا کر ان کو بتا دوں کہ کس طرح یہ اپنے کپڑوں کی دھلائی بہتر کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ الغرض ان کے پڑوسیوں کا گھر اور ان کے کپڑوں کی دھلائی ہمیشہ ہی اس عورت کی تنقید کا نشانہ بنے رہتے۔ ایک صبح جب یہ عورت ناشتے کی میز پر بیٹھی تو پڑوسیوں کے صاف ستھرے دھلے ہوئے کپڑے دیکھ کر حیران رہ گئی اور اپنے شوہر سے بولی دیکھا! بالآخر انہوں نے سیکھ ہی لیا کہ کپڑے کیسے دھوئے جاتے ہیں شکر ہے کہ آج ان کے کپڑے صاف ہیں لیکن مجھے حیرت ہے کہ آخر یہ عقل ان کو آئی کیسے؟ پھر شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے بولی:
شاید انہوں نے کپڑے دھونے کا طریقہ تبدیل کر لیا ہے یا پھر اپنا صابن بدل دیا ہے اور چپ ہوتے ہی اپنے شوہر کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔ شوہر جو ناشتہ کرنے میں مصروف تھا بیوی کی باتیں سن کر مسکراتے ہوئے، کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا بیگم! آج صبح میں جلدی اٹھ گیا تھا اور میں نے اس گرد سے بھری ہوئی کھڑکی کو اچھی طرح صاف کر دیا تھا جہاں سے تم سامنے والوں کو دیکھتی تھی بالکل ایسا ہی ہماری روز مرہ زندگی میں بھی ہوتا ہے۔
ہماری اپنی کھڑی صاف نہیں ہوتی اور ہم دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ خود ہمارے اندر ہوتا ہے لیکن ہمارا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا ۔ کسی کو پرکھنے کا یہ انتہائی بہترین طریقہ ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی کھڑکی کو دیکھیں ، کیا وہ صاف ہے؟ کیونکہ جب ہم کسی کو دیکھتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو اس بات کا انحصار اس کھڑکی یا ذریعے کی شفافیت پر ہوتا ہے جس سے ہم کسی کو جانچ رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کی سیاسی عینک اور وژن کا شیشہ دھندلہ تھا وہ عثمان بزدار سے لیکر جہانگیر ترین،علیم خان،چودھری محمد سرور کے اندر جھانک ہی نہیں سکا کہ ان کے اندر شفافیت کتنی ہے؟عمران نے خود کلہاڑی مار کر اپنی حکومت کے پاؤں تو کاٹے ہی ہیں مگر ملک کو زخمی زخمی کر دیا ہے۔اب، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
عمران خان کی سیاسی عینک کا دھندلا شیشہ
08:38 AM, 12 Apr, 2022