1996 کا سال تھا۔ بی اے پاس ہو چکا تھا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کا جنون بلکہ سودائی پن عروج پکڑ رہا تھا کہ وہ دن جلد آئے میں پوسٹ گریجوایشن کرنے کے لئے لاہور، فیصل آباد یا ملتان نکل جاؤں مگر مجھے دو دریاؤں کا سامنا تھا۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ ان دنوں پنجاب یونیورسٹی ایک سال لیٹ ہوا کرتی تھی۔بی اے /بی ایس سی کا رزلٹ نومبر میں آتا تھا اور اگلی کلاس میں داخلہ اگلے سال کے وسط کے بعد ہوتا تھا اور دوسرا یہ تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑے شہروں کا رخ کیا جاتا تھا۔ چھوٹے شہر میں پوسٹ گریجوایشن کی کوئی سہولت نہ تھی۔ غریب اور دہقان زدگان کے لیے ایسی تعلیم جاری رکھنا مشکل ترین کام تھا۔ (اس دور میں بھی جہانگیر ترین امیرترین آدمی تھا) مگر حوصلے پہاڑ جیسے ہوں اور کر گزرنے کی لگن ہو تو امیرِکاروان کے لیے رختِ سفر کا بندوبست ہو ہی جاتا ہے اور ہمت مرداں،مددِخدا والا مقولہ سچ ثابت ہوجاتا ہے۔ اگلی کلاس میں داخل ہونے میں ابھی چند ماہ باقی تھے اور گندم کی فصل پک چکی تھی۔ کل جائیداد اڑھائی ایکٹر زمین اور ایک بھینس ہی تھی۔ زمین جسے کاشت کر کے گزر بسر چل رہا تھا بلکہ آج کے دور سے اچھا چل رہا تھا۔ دو ایکٹر پر گندم، ایک چوتھائی ایکٹر پر بھینس کے لیے چارہ اور ایک چوتھائی ایکڑ پر پیاز، سبزمرچیں، کریلے، بھنڈی توری، کھیرے اور ککڑیاں کاشت کی تھیں جو ہمارے آرائیں ہونے کا بھرپور اور زندہ و جاوید ثبوت تھیں۔ گندم کاٹنے اور پھر اس کو اگانے کی مزدوری بچانے کی خاطر طے ہوا کہ اس بار گندم خود کاٹی جائے اور خود ہی اگاہی جائے۔صرف تھریشر والے کو ہی مزدوری دی جائے جو دینا مجبوری بھی تھی۔ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میرے چھوٹے پروفیسر عقیل امجد صادق اور ہمارے ہم عمر خالو نے حامی بھری اور اگلے ہی دن ہم تینوں نے آدھا ایکٹر گندم چار شانے چت کر دی۔ اس سے اگلے دن ایک دوست کو ساتھ لیا اور آدھا ایکٹر اور ڈھیر کردیا مگر دو دونوں کی تھکاوٹ نے جسم شل کر دیا۔ایک دن ریسٹ کی اور سوچا اگلے دو دن گاؤں کی روایت کے مطابق ”ونگار“ ڈالیں۔ چھوتھے دن کی ”ونگار“ کامیاب رہی اورہم ڈیڑھ ایکٹر گندم کاٹ کر سمیٹنے یعنی گٹھے باندھنے میں ایسے کامیاب ہوئے جیسے سب سیاست دان قومی خزانہ سمیٹنے اور بیرون ملک منتقل کرنے کی طاق میں ہوتے ہیں۔ آدھا ایکٹر گندم باقی تھی اور گرمی بھی شدت پکڑ رہی تھی۔تمام ونگارے بھی بھگت چکے تھے انہیں بھی معین قریشی کی طرح اور بہت کام تھے۔ خدا خدا کر کے ”لڈو آنٹی والا“ (جو ہمارا تازہ تازہ دوست بنا تھا) نے حامی بھری کہ وہ صبح ساتھ چلے گا۔ حسب وعدہ لڈو آگیا۔ میں،چھوٹا بھائی، خالو اور لڈو نے کھیتوں کی راہ لی۔ بارہ بجے تک اچھا خاصا کام نمٹ گیا۔۔ٹھیک ایک بجے ماں جی کھانا لے کر پہنچ گئیں۔ آلو گوشت، تندور کی روٹی، گڑ والے میٹھے چاول، سبز سلاد، دھنیے اور ٹماٹر کی چٹنی کے ساتھ لسی نے مزہ دوبالا کر دیا۔ پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور شہتوت کی چھاؤں میں استراعت فرمانے کی خاطر زمین پر ہی لیٹ گئے۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے سب کی آنکھ لگا دی۔ لڈو نے موقع غنیمت جانا اور آہستہ سے کھسک گیا جیسے حکومت ختم ہونے پر یا علاج کی خاطر سیاستدان لندن یا کسی اور ملک میں نکل جاتے ہیں۔ لڈو کو بھاگے ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ خالو کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے لڈو کو غائب پاکر پریشانی کا اظہار کیا مگر جلد ہی لڈوکے پیچھے دوڑ لگا دی۔ آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر لڈو کو پکڑ کر ایسے اٹھا کر لائے جیسے نیب والے اور آئی ایس آئی والے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ لڈو کو جائے وقوعہ پر لا کر کہا کہ یا تو بقیہ کام مکمل کروا یا ہمارا پرتکلف کھانا واپس کرو بس پھرلڈو کو بلا چوں چراں ہمارے ساتھ بقیہ کام کروانا پڑا۔ اسحاق ڈار بھی وہ ”لڈو“ ہی تھا۔ واپس آیا سولہ ماہ میں غریب عوام کا کچومر نکالا اپنے دام کھرے کیے اور چلتا بنا۔شہباز شریف نے بھی یہی کردار ادا کیا۔ جہانگیر ترین، شریف برادران اور زرداری نے اپنی شوگر ملوں کے ذریعے وہ دام کھرے کیے جن کی بدترین مثال کسی ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حیرانی اس بات پر کہ ہم ٹیکس دیں اور سہولتیں یہ سیاست دان اٹھائیں۔ ہم ٹیکس دیں اور یہ میڈیسن پرائیویٹ ڈاکٹروں سے لیں؟ ٹیکس ہم دیں اور ٹوٹی ہوئی سٹرکیں ہمارے مقدر میں ہوں۔ٹیکس ہم دیں اور یہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجیں۔ ٹیکس ہم دیں اور ایوین فیلڈ، سرے محل، جاتی عمرہ، بلاول ہاؤس اور بڑے بڑے پلازوں کے مالک یہ بنیں؟ ٹیکس ہم دیں اور بڑی بڑی گاڑیاں اور پروٹوکول یہ انجوائے کریں۔ ٹیکس ہم دیں اور مفت بجلی اور پٹرول کی سہولت انہیں میسر رہے؟ ٹیکس ہم دیں اور بڑے بڑے پرائیویٹ ڈاکٹروں اور بیرون ملک سے علاج یہ کروائیں؟ٹیکس ہم دیں اور بیرون ملک کے دورے اور سیر سپاٹے یہ کریں؟ٹیکس ہم دیں اور یہ اسی ٹیکس سے قرضے لیں اور واپس نہ دیں۔ملک ان کا، کاروبار ان کے، فیکٹریاں ان کی، ملیں ان کی، کارخانے ان کے، قرضے یہ لیں، خزانے خالی یہ کریں، اقربا پروری سے یہ کام لیں، اختیارات کا ناجائز استعمال یہ کریں، عدالتوں کو یہ خریدیں، نیب کے قوانین میں یہ تبدیلی کریں۔کوئی یہ بتاؤ عوام کیا کرے؟عوام صرف ان کی عیاشیوں کے لیے قربانیاں دے اور خود روٹی کے چند نوالوں کے لیے مجبور ہو جائے، روٹی اور دوائی کو ترسے۔ بھوک کے خوف سے بچوں کو زہر دے دے۔۔۔ کوئی تو ہو جو ان کو ”لڈو“ کی طرح کندھے پر اٹھا کر لائے اور کہے یا تو ہماری روٹی واپس کرو یا پھر اپنے حصے کا بقیہ کام کرواور یہ بلا چوں چراں ”لڈو“ کی طرح کام شروع کر دیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسل کی زندگیاں چوروں کی سلطنت میں گزار دیں گے اور ہم علی بابا کی طرح ہوں گے اور ہماری گردنوں پر یہی چالیس چور ہوں گے۔