کراچی :سینئر صحافی فاروق اقدس کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین کی سیاسی چالوں اور جنبش ابرو سے مہروں کو متحرک رکھنے کے فن کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ آصف زرداری کی سیاست کو سمجھنے کیلئے پی ایچ ڈی ضروری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی ایسا ہی ہے؟
سینئر صحافی کے مطابق بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ نگرانوں کی جانب سے سندھ میں مافیاز کے خلاف جو آپریشن ہو رہے ہیں ان میں سندھ اسمبلی کے بعض ارکان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین تک رابطوں اور رسائی رکھنے والی شخصیات بھی شامل ہیں۔
اس لئے انتخابی مہم میں جارحانہ تقاریر کا کردار بلاول بھٹو کو تفویض کیا گیا ہے تاکہ پارٹی میں جان پڑ جائے اور خود آصف علی زرداری نگرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیئلے ان کے موقف کی حمایت کرتے رہیں گے۔
ان کے حالیہ بیان میں تضاد کے حوالے سے سیاسی سطح پر ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے جو آج بھی موضوع بحث بنی رہی اور اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے کہ کیا واقعی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پارٹی میں اپنے منصب کے حوالے سے اپنے والد کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے ہیں یا یہ محض ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔
اکثریتی رائے کا ووٹ اس حق میں ہے کہ جس طرح شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے سیاسی فیصلوں میں بظاہر کتنے متضاد نظر آئیں لیکن اس بات پر یقین ہی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی سیاسی قدم اٹھا سکتے ہیں اسی طرح آصف علی زرداری نے بھی اپنے اور اپنے بیٹے کیلئے متضاد موقف تقسیم کرلئے ہیں جو اس مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہیں جو آصف علی زرداری نے وضع کی ہے ۔