پاکستان کی زوال پذیر معیشت کی بحالی کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے اور یہ مقصد زرعی و صنعتی شعبے کی بحالی کے بغیر ممکن نہیں لیکن ابھی تک اِس حوالے سے کام ہوتا نظر نہیں آرہا موجودہ حکمران اتحاد معاشی بحالی کے دعوئوں کے ساتھ ہی اقتدار میں آیامگر کیا حکومت اپنے دعوے یا وعدے پورے کرنے میں سنجیدہ ہے؟ اِس کا جواب نہیں دیا جا سکتا غربت، بے روزگاری اور مہنگائی نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے مگر حکومتی شخصیات کو احساس تک نہیں اگرہوتاتو ریلیف کے دعوے کرنے والے عوامی تکالیف میں اضافہ نہ کرتے لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ موجودہ حکمران اتحاد کے اقتدار میں آنے سے مہنگائی بالکل ہی بے لگام ہو گئی ہے اب حکمران عوامی تکالیف میں اضافے کی وجہ سیلاب کو قرار دیتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم کسی خاص کارگزاری کا مظاہرہ نہیں کر سکی پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر کہا جاتا ہے کہ فیصلے پر نواز شریف بطور احتجاج آف لائن ہو گئے اور شہباز شریف نے بھی دل پر پتھر رکھ کر قیمتوں میں اضافہ کیا ہے مگر ایسے کسی ناٹک پرمعمولی فہم و فراست والا بھی یقین نہیں کر سکتا دراصل اِداروں کی حمایت کو ہی حکومت نے سب کچھ تصورکرلیا ہے حالانکہ عوامی مقبولیت کھوکر اقتدار میں نہیں رہا جا سکتا لیکن لگتا ہے عوام کی بجائے مخصوص اِداروں پرہی تکیہ کی حکمتِ عملی کوکسی صورت دانشمندانہ نہیں کہہ سکتے۔
موجودہ حکمران اتحاد جب اپوزیشن میںتھا توپی ڈی ایم میں شامل ہر جماعت کے رہنما کا زور اسی بات پر ہوتا کہ عمران خان حکومت عالمی اِداروں کی ایما پر مہنگائی بڑھا رہی ہے مہنگائی کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے رہے لیکن اب آئی ایم ایف نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ عمران خان حکومت نے سبسڈی ختم کرنے کے وعدے پورے نہیں کیے اور قیمتیں بڑھانے کی بجائے پیٹرول اوربجلی کی مد میں عوام کو ریلیف دیا موجودہ حکومت نے تمام سبسڈی ختم کرتے ہوئے سارا بوجھ عام اور غریب آدمی پر ڈال دیا ہے جس کا ایک نقصان تو یہ ہواہے کہ پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہونے سے صنعتیں بند ہونے لگی ہیں کیونکہ مہنگا مال عالمی منڈی میں خریدار کی توجہ حاصل نہیں کرپاتا صنعتوں کی بندش سے نجی شعبے میں ملازمتوں کے مواقع کم ہونے سے بے روزگاری میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملکی مال مہنگا ہونے سے لوگ غیر ملکی سستا مال خریدنے کو ترجیح دینے لگے ہیں اِس طرح توخود انحصاری کی منزل حاصل نہیں ہو سکتی حکومت کو چاہیے تھا کہ زرعی و صنعتی مصنوعات میں ریلیف دے کر مہنگائی میں کمی لانے کی کوشش کرتی مگر اُس نے مسائل کا حل عالمی طاقتوں اور اِداروں سے قرض لینا سمجھ لیا ہے اِس طرح معیشت بحال نہیں ہو سکتی ۔
نیپرا حکام بجلی کی قیمت میں اضافے کی ہر درخواست کی منظوری دے دیتے ہیں ابھی حال ہی میں کچھ تقسیم کار کمپنیوں نے اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ تیل کی قیمتیں دو سو ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں اِس لیے حفظِ ماتقدم کے طور پر زیادہ نرخوں پر تیل کے سودے کر لیے لیکن ہوایہ کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرگئیں اب چاہیے تویہ تھا کہ اِس حماقت کی
سزا بھی ذمہ داران کو ملتی مگر ایندھن کے اخراجات بڑھنے کا بہانہ بنا کر بجلی کی پیداواری لاگت میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے طورپر ساڑھے تین روپے فی یونٹ اضافہ کو آسان حل بہتر تصور کیا گیاحالانکہ پہلے ہی فیول ایڈجسٹمنٹ کے طورپر صارفین تین روپے بیس پیسے فی یونٹ ادا کررہے ہیں حالیہ نئے فیصلے سے گھریلو اور زرعی و صنعتی شعبے کو مزید مہنگی بجلی ملے گی تقسیم کار کمپنیاں اپنی حماقت کی سزا صارفین کو دیکر فی یونٹ اُنیس پیسہ زیادہ رقم وصول کرلیں گی مگر حکمران اتحاد جسے عوامی حکومت ہونے کا زعم ہے تقسیم کار
کمپنیوں کے نئے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے نہ صرف خوش ہے بلکہ آئی ایم ایف جیسے اِداروں کو یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ عمران خان نے جو سخت فیصلے کرنے کی ہمت نہیں کی وہ فیصلے ہم کرنے سے نہیں ہچکچاتے بس آپ مزید قرضہ دیتے رہیں آپ کی تمام ہدایات پر عمل کرنا ہمارا کام ہے ملک سے ہر قسم کی سبسڈی ختم کردیں گے یہ طریقہ کار نہ تو عوامی مقبولیت میںاضافے کا باعث بن سکتا ہے اور نہ ہی ایسے طریقہ کارسے معاشی سرگرمیوں کا فروغ ممکن ہے بلکہ ایسے فیصلے عوام کو مہنگائی کے منہ میں دھکیلنے کے ساتھ ملکی معیشت کومزیدتباہ کردیں گے ۔
ایک عدالتی فیصلے کو بنیا د بنا کردوسویونٹ کے بجلی صارفین کو سہولت دینے کا خواب دکھایا گیا پھر وزیرِ اعظم نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی دوسویونٹ تک کی معافی کی حد کو تین سو کرنے کا اعلان کیا لیکن ابھی تک اعلانات پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آسکی بلکہ تقسیم کار کمپنیاں نیپرا کے ذریعے مزید مالی نفع حاصل کرنے کے چکر میں ہیں حکومت کے معاشی ارسطو مفتاح اسماعیل مہنگائی کے خاتمے اور معاشی بحالی کے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں مگر جب فیصلوں کی نوبت آتی ہے تو انھیں اپنا کوئی وعدہ یا دعویٰ یاد نہیں رہتا اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے ملک میں پہلے سے جاری معاشی سرگرمیوں میں بھی کمی آچکی ہے مگر اِس ناکامی یا نااہلی کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے حکومت سیلاب کی تباہ کاری کے پیچھے چھپنے کے چکر میں ہے مگر یہ مت بھولا جائے کی عوام کی جیبیں خالی کرانے سے لوگ خوش نہیں ہو سکتے بلکہ ایسے اقدامات سے عوامی نفرت شدت اختیارکرتی ہے۔
گردشی قرضے بھی ختم نہیں ہو سکے بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق 2253 ارب روپے کے ملک پر گردشی قرضے واجب الادا ہیں حالانکہ 564ارب روپے ادا بھی کیے جا چکے ہیں اسی طرح سی پیک کے توانائی کے منصوبوں میں گردشی قرضہ 220ارب سے تجاوز کر گیا ہے لیکن اِس معاشی بوجھ کو کیسے کم یا ختم کرنا ہے حکومت کوئی مستقل اور نتیجہ خیز حکمتِ عملی بنانے میں ہنوز ناکام ہے بجلی چوری روکنے ،واجبات کی وصولی اور شرح سود میں کمی سے یہ مسلہ مستقل طور پر حل کیا جا سکتا ہے لیکن لگتا ہے حکومت کا سارا زور بیان بازی اور بڑھکوں پر ہے اسی وجہ سے کوئی پالیسی نہیں بن رہی اور مسائل حل ہونے کی بجائے گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں قرضے حاصل کرنے سے معاشی نمو تب تک ممکن نہیں جب تک پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری نہ کی جائے حکومت مان لے کہ اُس کے معاشی ارسطو ناکام ہو چکے ہیں اگر معاشی بہتری لانے میں سنجیدہ ہے تو مہنگائی میں کمی لانے سمیت حکومت کو چہروں کے ساتھ پالیسیوں میں بھی تبدیلی لانا ہو گی اگر حکومت ریلیف دینے کی سکت نہیں رکھتی تو سولر پروگرام میں رعایتیں دینے، تیل کی بجائے ہائیڈل پاور سے زیادہ بجلی حاصل کرنے کے منصوبے شروع کرنے کی حکمتِ عملی اپنائے باربار بجلی کی قیمت بڑھانے کی بجائے لائن لاسز کو روکا جائے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو میرے خیال میں مہنگی بجلی سے پیداواری شعبے کو ترقی دینا اور معاشی بحالی کی منزل حاصل نہیں ہو سکتی۔