بنی آدم کے دنیا میں آباد ہونے کے بعد سے اب تک کوئی بھی زمانہ ایسا نہیں گزرا، جس میں خیرو شر بیک وقت موجود نہ رہے ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہابیل اور قابیل بالترتیب خیر اور شر کے نمائندے تھے۔ آگے جاتے ہیں ،تو نوح علیہ السلام کے زمانے میں بھی اِن دونوں کی موجودگی نظر آتی ہے۔ایک طرف نوح علیہ السلام کی موعظت و ہمدردری پر مبنی دعوتِ خیر تو دوسری جانب اْس خیر کو ردّ کرنے والے شر کے علمبردار۔ اِسی طرح خیر کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت موسیٰؑ نظر آتے ہیں ،تو دوسری جانب "اَنَا رَبّْکْمْ الاَعلیٰ"کا ببانگِ دہل اعلان کرنے والے فرعون کی فرعونیت ظلم و استبداد پر مبنی حکمرانی۔ اِسی زمانے میں سرمایہ دارانہ سوچ کا حامل قارون اور دنیوی منصب و منفعت کا بھوکا ہامان شر کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اِس تناظر میں جب جنابِ خاتم النبیّینﷺ کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں ،تو ایک طرف آپﷺ کی رحمت بھری اور مجموعہ خیر ذات گرامی تھی ،تو دوسری جانب اَبوجہل ، اَبولہب ، عتبہ ، شیبہ اور عبد اللہ بن اْبی جیسے کم ظرف و ناہنجار تھے۔ قرآنِ مجید کے متعدد مقامات پر انسانوں کے اِن دونوں طبقوں کا ذکر موجود ہے۔
آج بھی معاشرے میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جن کا کام صرف اللہ تعالیٰ کی مخلوق کیساتھ حسنِ سلوک کرنا ہے، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا اور دکھ درد میں اْن کے شانہ بشانہ ہوکر اْن کے دکھوں کا مداوا کرنا اْن کی زندگی کا اوّلین مقصد ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے لینے کی بجائے اْنہیں دیتے ہیں۔ کبھی روز گار ،تو کبھی مالی اِمداد کی صورت میں۔ کہیں وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہوئے ،تو کہیں مریضوں کے لئے مفت دوا کا انتظام کرتے نظر آتے ہیں۔ اِس کے برعکس شر کے پیروکار مخلوقِ خدا کا استحصال کرتے ہیں، اْنہیں تکلیف پہنچاتے ہیں،اْن کے دکھ درد میں کمی کرنے کی بجائے اْن کے لئے نت نئے مسائل کھڑے کرتے ہیں۔ اور وہ اِس قدر ظالم و سنگدل ہوتے ہیں کہ مالدار ہونے کے باوجود اپنی ہوس کی تسکین کے لئے معاشرے کے پس ماندہ لوگوں کی محنت و مشقت کی کمائی تک ہڑپ کرجاتے ہیں۔ کبھی نام نہاد کاروبار کے نام پر، تو کبھی ہاؤسنگ سکیم کے دلفریب نعرے سے۔ قرآن وحدیث کے مطابق ایسے لوگ بدترین مخلوق میں سے ہیں، اْنہیں جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا گیاہے۔
ابھی حال ہی میں پاکستان میں دو شخصیات کو بہت شہرت ملی ،جن کے نام تو ایک ہیں لیکن کردار الگ الگ۔ ایک خیر کا نمائندہ ہے ،تو دوسرا شر کا۔ پہلے کا نام ہے "ڈاکٹر اَمجد ثاقب" جبکہ دوسرے کا "ڈاکٹر امجد "ہے۔ ایک خدمتِ خلق، رفاہِ عامہ ، قرض اور بے روزگاروں کو روزگار کی فراہمی میں مدد دینے کے حوالے سے شہرت رکھنے والی تنظیم"اْخوت فاؤنڈیشن" کے روحِ رواں اور سربراہ ہیں ،تو دوسرا"ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی" کے بدنامِ زمانہ سکیم کا مالک۔ یعنی نام ایک ہے لیکن کردار الگ الگ۔ ابھی چند دن پہلے ہی اْخوّت کے ڈاکٹر اَمجدثاقب کو حال ہی میں معاشرے کی فلاح و بہبو د اور خدمتِ خلق کے لئے کئے گئے اقدامات کے اعتراف میں "مگیسے ایوارڈ" سے نوازا گیا۔ اگرچہ ڈاکٹر امجدثاقب جیسے سپوت کو اپنے کاموں کے عوض میں اِس جیسے ایوارڈز کی ضرورت نہیں ہوتی، اْن کا اصل ایوارڈ تو یہ ہوتا ہے کہ بے بس ومجبور بندے اْن کے لئے دعا کریں، اْنہیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں تاہم ملکی و بین الاقوامی سطح پر ملنے والے اِن ایوارڈ زکی وجہ سے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند ضرورہوجاتا ہے اور پھر معاشرے کے بہت سارے افراد میں اِن جیسا بننے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔
جن دنوں اْخوّت فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر اَمجد ثاقب کو ایوارڈ دیا گیا، اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ اْن ہی دنوں میں ایڈن ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک ڈاکٹر امجد کا انتقال ہوا۔ اِدھراْخوّت کے ڈاکٹر امجد ثاقب کو ایوارڈ ملنے پر ملک کے طول وعرض اور پوری دنیا سے تہینتی پیغام آرہے تھے، تو وہی ایڈن ہاؤسنگ سکیم کے ڈاکٹر اَمجد کے جنازے میں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ پلے کارڈ ز لئے اپنے ڈوبے پیسے کی واپسی کے لئے احتجاج ریکارڈ کرارہے تھے۔ وہاں موجود متاثرین میں سے ہر ایک اپنے غصے اور جذبات کا اظہار کررہا تھا ، کئی تو ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے ڈاکٹر امجد کے اہلِ خانہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اْن کے پیسے واپس کریں وگرنہ وہ میت کو دفنانے نہیں دیں گے۔ نقصِ عامہ کے پیشِ نظر وہاں سکیورٹی فورسز کو طلب کرنا پڑا۔ اوراِس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہوسکتی ہے کہ دفنائے جانے کے بعد بھی اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ متاثرین میں سے کوئی اْن کی میت کو نکال کر بے حرمتی کا مرتکب نہ ہوجائے ابھی تک قبر پر گارڈزمتعین ہیں۔
ڈاکٹر اَمجد ثاقب وہ شخص ہیں، جنہوں نے شہر شہر ، قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں جاکر ملک کے غریب ، بے روزگار اور مفلوک الحال لوگوں میں کروڑوں نہیں اربوں روپے تقسیم کئے۔ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا اور پھر پاکستان تو پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لئے خیر کی علامت بن گئے۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں مائیکروفنانسنگ اور قرضِ حسن کے حوالے سے ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے اْخوّت کے ماڈل کو اختیار کیا جارہا ہے۔ دنیا کے بڑے اور نامور مالیاتی ادارے اِنہیں لیکچرز اور مشورے کے لئے مدعو کرتے ہیں۔ اِس سے ادارے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا نام بھی روشن ہوتا ہے۔ دنیا کو پاکستان کے بارے میں ایک مثبت پیغام پہنچتا ہے۔ اِس کے برعکس ایڈن ہاؤسنگ کے ڈاکٹر امجد وہ ہیں، جنہوں نے گیارہ ہزار خاندانوں سے ہاؤسنگ سکیم اور پلاٹوں کے نام پر پچیس ارب روپے سے زائد ہتھیالئے اور بارہ سال ہوگئے ، اْن گیارہ ہزار خاندانوں کو نہ پلاٹ ملا اور نہ ہی اْن کی ڈوبی ہوئی رقم۔
اْخوّت کے ڈاکٹر اَمجد ثاقب کا کردار دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ لوگ دنیا میں امرہوجاتے ہیں ،جو یہاں خیر تقسیم کرتے ہیں اور جو لوگ شر پھیلاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر ظلم کرتے ہیں اوراْن کی محنت سے کمائی گئی دولت ہضم کرجاتے ہیں ، دنیا میں ذلت و رسوائی تو اْن کا مقدّر بنتی ہی ہے مرنے کے بعد بھی اْنہیں سکون نہیں ملتا۔ کسی بندے کے لئے اِس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہوسکتی ہے کہ اْس کے جنازے میں لوگ اْس کے لئے دعائے مغفرت کرنے کے بجائے ،اْسے بددعائیں دیں۔ جس شخص نے دنیا کمانے کے لئے سب کچھ کیا ، آج دنیا ہی اْس کی نہ رہی۔ یہاں تک کہ جن اولاد اور رشتے داروں کے لئے یہ سب کچھ کیا، وہ بھی ساتھ نہیں گئے۔ بندہ مومن توقیامت کے دن ایک بالشت بھر زمین غصب کرنے کا عذاب نہیں سہہ سکتا ،تو اَربوں روپے کی ہزاروں ایکڑ زمین کا عذاب کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ اْخوّت کے ڈاکٹر امجد کا کردار ہمیں خیر کی دعوت دیتا ہے جبکہ ایڈن کے ڈاکٹر امجد کا کردار ملک میں موجود زمین کے نام پر اَربوں کا فراڈ کرنے والوں کے لئے ایک سبق ہے، درس ِ عبرت ہے اور پیغام ِ ہدایت ہے۔ ڈاکٹر امجد شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کے "شاہین " ہیں، تو ایڈن کے ڈاکٹر امجد جیسے لوگ اِس قوم کے "کْرگَس" ہیں۔
ڈاکٹر امجد اگرچہ اب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، اْن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جاچکاہے۔جہاں عدل کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تاہم اب گیند اْن کے وارثین کے کورٹ میں ہے۔ وارثین کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے تمام متاثرین کے نقصان کا اِزالہ کریں ، خود بھی دْنیوی و اْخروی پکڑ سے بچیں اور اپنے مورِث ڈاکٹر امجد کی قبر کو بھی ہلکا کریں۔ اَربابِ اختیار بھی ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کو حق دلانے میں اپنے قانونی اور آئینی اختیارات استعمال کریں ، یہ بھی ڈاکٹر اَمجد مرحوم کے ساتھ خیرخواہی ہوگی۔
بقول ڈاکٹر محمد اقبالؒ:
پرواز ہے دونوں کی اِسی ایک فضا میں
کْرگَس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور