ہمارے محلے میں ایک چنے کی ریڑھی لگانے والے سے ہم اکثر صبح ناشتے کے لئے پچاس روپے کے چنے لیتے تھے ،کچھ دن قبل جب اس کے گھر گیا تو اس نے بتایا کہ کاروبار کرنا اب غریب اور سفید پوش پاکستانی کے بس میں نہیں رہا، چنے، گھی ،گیس ،بجلی ،پیاز ،آلو ،دہی ،مرچ ،کوئلے وغیرہ کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں جبکہ اس کے برعکس عام آدمی بیس ،پچاس کے ہی چنے مانگتا ہے ،منافع نہ ہونے کے باعث اس نے کام چھوڑ دیا ،ایسی ملک بھر میں آپ کو ہزاروں مثالیں ملیں گی ،مہنگائی کے طوفان نے بے روزگاری میں دگنا اضافہ کردیا ہے ، یہ تو شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نے رزق کا ذمہ لیا ہے ورنہ تبدیلی سرکارہر نوالے پر ٹیکس لگانے کو تیار بیٹھی ہے اور یہ پراپیگنڈہ بھی جاری ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے ،عوام خاص کر متوسط طبقے کا جو حال تبدیلی سرکار کے تین سال میں ہواہے وہ گزشتہ ستر سال میں نہیں ہوا ،بجلی ،گیس ،پیٹرول ،ڈیزل ،اشیا خورنی ودیگر ضروریات زندگی کے نرخ تقریباًدوگنے ہوگئے ہیں لیکن حکمران اور ان کے وزراء کی فوج ظفر موج کا سارا نزلہ اور الزام سابقہ حکمرانوں پر ہی گرتارہا ہے ،آدھے دن بجلی نہ ہونے کے باوجود بل ہزاروں میں آتاہے ،ادویات ودیگر ضروریات زندگی جن میں کپڑے ،یونیفارم ،درسی کتب ،ٹیوشن ،سکول فیسز ،عوام کی پہنچ سے بہت دور ہوتی جارہی ہیں ،اب حال یہ ہوگیا ہے کہ چھوٹے تاجر اپنا کاروبار ختم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ دکان کا کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز دینے کی ان کی استطاعت اب رہی نہیں اوپر سے سونے پر سہاگہ کورونا نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے ،جس کے باعث تاجر حضرات اپنے ملازمین کو فارغ کررہے ہیں یا ان کی اجرت میں کمی کرنے پر مجبور ہیں ،ادھار مانگنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ،ادھار لینے کے بعد اسے ادا کرنا مشکل ہوجاتاہے ،کیونکہ قلیل تنخواہوں میں اور کاروباری حالات ناگفتہ بہ ہونے کے باعث پورے ماہ کا خرچ چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے ،چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں ،لوگ فاقوں پر مجبور ہیں ،ایک سروے کے مطابق گزشتہ تین سال میں ملک کی آدھے حصے سے زائد آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہنے پر مجبور ہے ، جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ تبدیلی سرکار کے دور میں اپنے ہمسایہ ملکوں بھارت ،افغانستان ،ایران اور بھوٹان ،برما ،بنگلہ دیش ،سری لنکا وغیرہ کی نسبت تگنی ہوگئی ہے ،لیکن اس کے باوجود ہمارا خزانہ خالی ہے ،ستر سال کی نسبت قرضہ تین گنا لیا گیا، کوئی میگا پراجیکٹ بھی شروع نہیں کیا گیا ،پھر بھی عوام کی بہتری وخوشحالی کے لئے کوئی اقدامات کرنا تودرکنار انہیں زندہ درگور کرنے کا سلسلہ جاری ہے،خودکشیاں عام ہورہی ہیں ،کرپشن کو ختم کرنے والی عمران سرکار کے تین سالہ دور میں ادارے تباہ وبرباد ہوگئے ہیں ،کرپشن کا ناسوردن بدن بڑھتا بلکہ اپنی انتہائی بلندی کی سطح پر پہنچ چکا ہے ،لیکن تبدیلی سرکاراور ان کی کابینہ درپردہ افسر شاہی ،اسٹیبلشمنٹ مطمئن ہے ،دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل اور اسباب کو لوٹا جارہا ہے لیکن ہمارے احتسابی ادارے صرف سیاسی انتقام میں مصروف ہیں ،انہیں کرپشن صرف سابقہ ادوار کی نظر آتی ہے ،موجودہ دور میں سب انہیں دودھ کے دھلے ہوئے نظر آتے ہیں ،وسائل کی بندر بانٹ شروع ہے، کروڑوں کے پلاٹس کو ڑیوں کے بھائومن پسند لوگوں ،افسران ،ججز،جرنیلز،صحافیوں ،افسر شاہی ،سیاستدانوں میں بانٹے جارہے ہیں جبکہ غریبوں کو چھتوں سے محروم کیا جارہاہے ،ان کے بچوں کے لئے اب تعلیم کا حصول ناممکن ہوگیا ہے ،کورونا کے باعث سکول ،کالجز بند ،تعلیمی معیار جو کہ پہلے ہی ناقص تھا ،اب زمین بوس ہوگیا ہے ،والدین پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری فیس ادارے بند ہوجانے کے باوجود ادا کرنے سے قاصر ہیں، لہٰذا انہوںنے اپنے بچوں کو نکالنا شروع کردیاہے ،ہماری شرح خواندگی جو پہلی ہی بہت کم ہے ،مزید کم ہوگئی ،چھوٹی صنعتیں بے پناہ ٹیکسز اور گیس وبجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث بند ہورہی ہیں، کاروباری افراد دیگر ممالک میں بمعہ اپنے کاروبار کے منتقل ہورہے ہیں جب میڈیا ان مشکلات اور مہنگائی ،بے روزگاری کی طرف حکومت کی توجہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے مبذول کراتا ہے تو ان کی زبان بندی کے لئے تمام تر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ،میڈیا کا گلا گھونٹنے اور انہیں اپنی جوتی کی نوک پر رکھنے کے لئے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے لئے حکمران بضد ہیں جبکہ پاکستان کی تمام تر صحافتی یونیز ،ادارے ،وکلاء بارکونسلزاسے مکمل مسترد کرچکے ہیں لیکن حکومت میڈیا کا گلا گھونٹنا چاہتی ہے تاکہ اس کا کچا چٹھہ عوام کے سامنے نہ آسکے ،حکومت اور درپردہ اصل حکمرانوں یعنی اسٹیبلشمنٹ نے ویسے بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو تقریباً خاموش کرا رکھا ہے لیکن سوشل میڈیا عوامی مشکلات ،مہنگائی اور حکمرانوں کے کردار ،کرپشن کی نشاندہی کررہا ہے ،میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگانے کی مذموم سازش ہے جسے عالمی سطح پر ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اگر کوئی میڈیا کے سلسلے میں قانون بنانا چاہتی ہے تو وہ تمام ملکی صحافتی یونین ودیگر سنیئر صحافیوں سے مشاورت کے بعد قانون بنائے بصورت دیگر صحافی اور صحافتی تنظیمیں بھی عوام ،وکلاء اور سیاستدانوں کی طرح احتجاج پر مجبور ہوں گی ،اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے سلسلے میں اپوزیشن کا کردار انتہائی مجرمانہ اور غافلانہ ہے ،وہ الیکشن کے دنوں میں تو میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ،لیکن مہنگائی کے خلاف ان کا کوئی اقدام ،تحریک قومی وصوبائی ایوانوں اور سیاسی میدان میں نظر نہیں آتا۔
مہنگائی کا جن اور میڈیا پر قدغن کی سازش
10:29 AM, 11 Sep, 2021