پچھلے ڈیڑھ سال سے کرونا نے پورے ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ ہیلتھ سیکٹر کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ جس سے نان کرونا بیماریوں کے مریض بھی بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ ہر فیملی کا ہیلتھ بجٹ اتنا بڑھ گیا ہے کہ غریب آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ یومیہ اجرت سے گھر کا راشن خریدے یا دوائی کے پیسے پورے کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ راشن کو ترجیح دیتا ہے اور اپنے علاج کے لیے کسی پیر فقیر یا اتائی کے پاس چلا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی فیس اور لیبارٹری ٹیسٹ کے خرچے اور دوائی کی قیمت اتنی بے رحمی سے بڑھی ہے کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا یہ نظام بلا امتیاز فوجی اور سیاسی حکومت اور بلا امتیاز سیاسی پارٹیوں کے اقتدار کے ہر دور میں غیر معمولی منافع بخش رہا ہے اور آج بھی ہے کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔
آئیں آپ کو تاریخ کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں بھٹو کابینہ کے وفاقی وزیر صحت شیخ محمد رشید مرحوم نے میڈیسن کمپنیوں کی لوٹ مار ختم کرنے کے لیے Generic Medicine سکیم کی پالیسی بنائی جس کے تحت مارکیٹ میں 10 روپے میں دستیاب دوائی کی غیر تجارتی اور غیر منافع آور طریقے سے تیاری کا اہتمام کیا جائے تو یہی دوائی اس وقت کے نرخوں کے حساب سے 10 روپے کے بجائے 2 روپے میں ملے گی۔ جینرک میڈیسن کے تصور سے ملک کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں بھونچال آ گیا۔ کمپنیوں نے وزیر صحت شیخ رشید مرحوم کو بھاری رشوت کی پیش کش کی مگر انہوں نے ٹھکرا دی جس کے بعد میڈیسن مافیا نے بھٹو مرحوم کے ذاتی معالج ڈاکٹر نصیرشیخ کو اپنے جال میں پھنسا لیا ۔ نصیرشیخ نے فارما کمپنیوں سے وعدہ کر لیا کہ آپ نے گھبرانا نہیں۔ جب جینرک سکیم کابینہ میں پیش ہوئی تو ڈاکٹر نصیر شیخ نے اس کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ شیخ رشید چاہتے ہیں کہ مرسیڈیز اور ٹویوٹا گاڑیاں دونوں ایک ہی قیمت میں فروخت ہوں جو ممکن نہیں۔ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ نصیر شیخ اور میڈیسن کمپنیاں ٹیوٹا گاڑی پر مرسیڈیز کا لوگو یا لیبل لگا کر عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ اس دلچسپ مباحثے کے بعد کابینہ نے جینرک میڈیسن سکیم منظور کر لی لیکن میڈیسن مافیا کی خوش قسمتی اور عوام کی بدقسمتی کی وجہ سے اس کے بعد بھٹو صاحب اپنی سیاسی مشکلات میں پھنس گئے اور انہیں اس پر عمل درآمد کا موقع نہ مل سکا ۔ وہ دن اور آج کا دن میڈیسن میں سب سے پہلا نمبر ہیلتھ کے شعبے کا ہے ۔ موجودہ حکومت کے دور میں میڈیسن کی قیمتوں میں جتنی تیزی سے 3-4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ پون صدی کا ایک ریکارڈ ہے۔ اب تک تین وفاقی وزرائے صحت آزمائے جا چکے ہیں بلکہ پچھلے دونوں وزرائے صحت پر اربوں روپے کے Kick Backs اور غبن کے الزامات ہیں اور مذکورہ افراد حکمران پارٹی سے رفو چکر ہو چکے ہیں مگر انہیں وزارت سے ہٹائے جانے کے علاوہ کوئی سزا نہیں دی گئی۔
موجودہ وزیراعظم کا تعلق بھی ہیلتھ سیکٹر کے ساتھ ہے کیونکہ وہ ملک کے سب سے بڑے پرائیویٹ کینسر ہسپتال کے بانی ہیں جو ٹرسٹ ہے اور بغیر منافع خدمات انجام دینے کا اعلان کرتا ہے۔ شوکت خانم لیبارٹری کے خون ٹیسٹ کی فیس سب سے زیادہ ہے حالانکہ وہ بغیر منافع کام کرتے ہیں۔ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ دلچسپ خبر یہ ہے کہ آج کل شوکت خانم کے مدمقابل اور ایک لیب (چغتائی) نے ٹیسٹ فیصد میں 50 فیصد ڈسکاؤنٹ کا اعلان کیا ہے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ آدھی قیمت پر ٹیسٹ کرنے کے باوجود یہ کمپنی منافع کما رہی ہے۔ اب حقیقت حال کا انداز آپ خود لگا لیں۔ یہ پالیسی زیادہ دیر نہیں چل سکتی کیونکہ اس سے ڈاکٹروں کو نقصان ہو گا۔ ان کا 25 فیصد کمیشن جب انہیں نہیں ملے گا تو وہ مریضوں کو اور لیبارٹریوں میں بھجوانا شروع کر دیں گے۔
گزشتہ ڈیڑھ سال میں کرونا کی وجہ سے ان لیبارٹریز نے اپنی تاریخ کا بلند ترین ریونیو حاصل کیا ہے اسے آپ منافع کا نام دیں یا نان پرافٹ کہیں مگر عوام کی چمڑی ادھیڑ دی گئی ہے۔ چغتائی لیب کا 50 فیصد ڈسکاؤنٹ شاید اسی احساس جرم کا کفارہ ہے یا ڈاکٹروں کے ساتھ کوئی تجارتی جنگ ہے اس کا بھی جلد ہی پتہ چل جائے۔
دوسری طرف ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس منافع کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ اس وقت جگر کے کینسر کے مریض پرائیویٹ سپیشلسٹ ڈاکٹروں کو 3 سے 4 ہزار روپے ایک وزٹ کا دے رہے ہیں جو زیادہ سے زیادہ 10 منٹ ٹائم دیتا ہے گویا 4 ہزار والے ڈاکٹر کی ایک گھنٹے کی کمائی 24000روپے ہے۔ یہ کسی ظلم سے کم نہیں مگر اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ حکومت خاموش ہے۔ 4 ہزار روپے فیس میں جی ایس ٹی ہے نہ کوئی اور ٹیکس۔ اتنی فیس تو امریکہ میں بھی نہیں ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کا رخ کریں تو وہاں کرپشن اور بدنظمی عروج پر ہے۔ ہسپتال کا سارا نظام ہاؤس جاب پر رکھے گئے زیر تربیت ڈاکٹر یا پوسٹ گریجویٹ ریذیڈنٹ چلا رہے ہیں۔ پروفیسر کرونا کی وجہ سے کسی مریض کو ہاتھ نہیں لگاتے بلکہ ہسپتال آنے کی زحمت بھی کم ہی کرتے ہیں۔ ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ ٹیچنگ ہسپتالوں میں سکھانے کا کلچر نہیں ہے۔ پروفیسر صاحبان خود اعتراف کرتے ہیں کہ نئے ڈاکٹروں کو سکھائیں گے تو ان کی اپنی وقعت کم ہو جائے گی۔ جونیئر ڈاکٹر خالصتاً اپنی محنت اور ذہانت اور منت سماجت اور خوشامد سے کچھ نہ کچھ سیکھ جاتے ہیں۔
موجودہ حکومت کی ہیلتھ انشورنس سکیم کے اندر اس قدر گھپلے ہیں کہ انشورنس کمپنی مریض کو مجبور کرتی ہے کہ اس کے علاج پر اگر 10 ہزار کا خرچہ آیا ہے۔ تو کارڈ کے ذریعے 50 ہزار کا حکومت کو ٹیکہ لگایا جائے اس میں ڈاکٹر بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ مریض کے لواحقین اس لیے اس کا مجبوراً حصہ بنتے ہیں کیونکہ کون سا یہ ان کی جیب سے جا رہا ہے۔ اس پر اگر انکوائری کرائی جائے تو یقین کریں کہ یہ سکیم اتنی فلاپ اور Misused ہو رہی ہے کہ اسے فی الفور بند ہونا چاہیے۔ جب یہ حکومت رخصت ہو گی تو ہیلتھ انشورنس کے ایسے ایسے قصے بے نقاب ہوں گے کہ دیکھتا جا شرماتا جا۔ ہمارا چیلنج ہے حکومت اس پر سروے کرا کر دیکھ لے۔ حکومت 35 ماہ میں 5 چیف سیکرٹری اور 7 آئی جی پولیس بدل بدل کر دیکھ چکی ہے مگر یہ نہیں کرتے کہ ایک دفعہ چیف سیکرٹری اور آئی جی کا باس تبدیل کر کے دیکھ لیں۔ جب فیصلے میرٹ کے بجائے انا پرستی کی بنیاد پر ہوں گے تو نتائج وہی ہوں گے جو آپ کے سامنے ہیں۔