اسلام آباد: تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب میں آج تک کسی کی عزت نفس کی تذلیل نہیں کی گئی جن کے پاس موٹر سائیکل تھیں ان کے دبئی میں جو ٹاور کھڑے ہیں اس کے بارے میں پوچھ لیا تو کیا برا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ تاجر برادری میں خوف اور ہراسمنٹ ہے تاہم یقین دلاتا ہوں ہر وہ تاجر جو ضمیر کے مطابق ملکی مفاد اور معیشت کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے کبھی ایسا نہیں ہو گا ان میں سے کسی کے لیے ہراسمنٹ کا ذہن میں تصور بھی آ جائے۔
انہوں نے کہا کہ نیب میں تاجر برادری کے لیے اسپیشل ڈیسک بنا رہے ہیں اور ڈائریکٹر یا ڈپٹی ڈائریکٹر لیول کا افسر وہاں وہاں موجود رہے گا جو تاجروں کی جائز شکایات کے ازالے کے لیے ہر وقت تیار ہو گا۔ تاجر برادری کے مفادات کے تحفظ کے لیے نیب موجود ہے اور اگر آپ کا ہر قدم ملکی مفاد کے لیے ہے تو نیب آپ کے ساتھ ہے۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ہمیشہ کوشش کی کہ کیا کوئی مقدمہ بنتا ہے اور بلانے کا جواز موجود ہے۔ غلطی اور جرم میں فرق ہے کیونکہ غلطی درگزر ہوگی لیکن جرم درگزر نہیں ہوسکتا اور تاجروں کا چھوٹا جرم بھی ملکی مفاد پر مضر ہوتا ہے۔
جاوید اقبال نے کہا کہ نجی ہائوسنگ سوسائٹیز کے خلاف ایکشن لیا کیونکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ غریب کے منہ سے نوالہ چھینا۔ سالہا سال گزرنے کے باوجود جو خواب انہوں نے دیکھا تھا وہ پورا نہیں ہوا وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ایسے لوگوں میں سے چند لوگوں کو بلا کر کہا گیا کہ غریبوں کے پیسے دیں یا پھر پلاٹ دیں اس میں کوئی دھونس دھمکی نہیں ہوئی۔
چیئرمین نیب نے مزید کہا کہ زندگی میں اپنی اننگز کامیابی سے مکمل کی اور نیب میں صرف کرسی کے لیے نہیں بیٹھا۔ چاہتا ہوں کہ یہ آخری اننگز یادگار رہے اور یقین دلاتا ہوں کرپٹ عناصر دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں نیب ان کا پیچھا کرے گا۔ لوگوں کی لوٹ ہوئی دولت ان تک پہنچائی جائے گی اور یہ کوئی مہربانی نہیں میرے فرائض میں شامل ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ مجھے خریدنے کی باتیں کی گئیں میں کوئی پلازہ نہیں اور ایسی چیزیں ناممکنات میں سے ہیں۔ ہر اثر، ہر سفارش اور بڑے آدمی کا اثر و رسوخ نیب کے گیٹ کے باہر ختم ہو جاتا ہے اور گیٹ کے اندر صرف قانون ہے جس کے آپ سب اور میں بھی پابند ہوں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ اس وقت پاکستان نوے ارب ڈالر سے زیادہ کا مقروض ہے اور کیا نیب کا قانون کے تحت کوئی حق نہیں کہ جن لوگوں نے یہ قرض لیا ان سے پوچھے۔ زمین پر کوئی قرض نظر نہیں آ رہا جبکہ قرض کا مقصد یہ تھا کہ عوام اور ملک کے لیے لیے جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور ان لوگوں سے جواب طلبی کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ 10 ماہ میں کسی فیس کو نہیں کیس کو دیکھا اور طے پایا تھا کہ سب کا احتساب ہو گا جو کرے گا وہ بھرے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا کیونکہ نیب کا کسی گروپ اور کسی شخص یا مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر قدم اور تمام وفاداریاں صرف پاکستان اور عوام سے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب کمزور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سب کچھ کر رہا ہے وہ جو ملک کے اربوں ڈالر باہر لے کر گئے وہ واپس آ سکے۔ حکومت اور نیب اس کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے لیکن کوئی غلط سپنا نہیں دکھاؤں گا کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ جب ہمارے ایک ہاتھ میں کشکول ہو گا تو دوسرے ملک کو کیسے مجبور کر سکتے ہیں۔