پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ  برقرار،  فل کورٹ نے درخواستیں مسترد کردیں

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ  برقرار،  فل کورٹ نے درخواستیں مسترد کردیں
سورس: File

اسلام آباد :پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو  برقراررکھتے ہوئے  فل کورٹ نے درخواستیں مسترد کردیں۔سپریم کورٹ نے  پریکٹس اینڈ  پروسیجر ایکٹ کے خلاف  درخواستیں مسترد کردیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق دس، پانچ کے تناسب سے ایکٹ کو برقرا ر رکھا جاتا ہے۔ دس ججو ں نے حق میں اور پانچ نے  مخالفت  کی۔


سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں کو برقرار رکھا اور فیصلہ سنایاکہ فل کورٹ نے 5-10 کے تناسب سے ایکٹ کو برقرار رکھا جاتا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس شاہد وحید نے ایکٹ کی مخالفت کی جبک باقی ججز نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں۔


فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آٹھ اور سات کے تناسب پر اپیل کے حق کے ماضی کے اطلاق کی مخالفت کی گئی اور اب ایکٹ کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا۔


اٹارنی جنرل عثمان منصور کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہاتھاکہ اگر آج اتفاق رائے نہیں ہوتا تو فیصلہ محفوظ سمجھیں جو بعد میں سنایا جائے گا اور اگر ججوں میں اتفاق رائے ہوگیا تو فیصلہ آج ہی سنا دیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت  ہوئی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ لاسٹ بٹ ناٹ دی لیسٹ ( Last but not the least)  ہیں۔

اٹارنی جنرل  منصور عثمان نے کہا کہ  میں کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل دےچکا ہوں، تین سوالات اٹھائے گئے تھےجن کا جواب دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ میں آرٹیکل191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، پارلیمنٹ کے ماسٹر آف روسٹر ہونے کے سوال پر دلائل دوں گا، اپیل کا حق دیے جانے پر دلائل دوں گا اور فل کورٹ کےفیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا۔ 


 

منصور عثمان کا کہنا تھا آرٹیکل 14، 20، 22 اور 28 میں درج بنیادی حقوق پر عمل قانون کے مطابق ہوتا ہے، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیاگیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے۔


چیف جسٹس نے کہا کیا آپ یہ کہہ رہےہیں کہ آرٹیکل 191میں لا کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 1956ء کے آئین کے مطابق رولز کی منظوری صدر یا گورنر جنرل کی تھی، آپ کے مطابق پارلیمنٹ کو رولز میں رد و بدل کی اجازت ہے، آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس سے پہلے سپریم کورٹ کے رولز کی منظوری پارلیمنٹ نے کیوں نہیں دی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختیار استعمال نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کا اختیار ختم ہو گیا، پارلیمان کا آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ کرنے کا مطلب اپنا اختیار سرینڈر کرنا نہیں، آرٹیکل191 میں قانون کا لفظ موجود ہے جس کے تحت ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر لا بنا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل سوال تو عدلیہ کی آزادی کا ہی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ یہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی کو سلب کر رہا ہے یا بڑھا رہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختیارات کی تقسیم کے اصول، عدلیہ کی آزادی کے نکات پر دلائل میں ان سوالات کے جواب دوں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل یہ لفاظ صرف لا نہیں سبجیکٹ ٹو لا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل191 مختلف اور باقی جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ مختلف ہیں، جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ بنیادی حقوق ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب کے درمیان نوک جھونک بھی دیکھی گئی تھی۔  

جسٹس منیب اختر کی جانب سے سوال پوچھنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے "اگر ہم نے پہلے ہی اپنے ذہن بنا لیے ہیں تو ہم فیصلے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب اختر بولے "بحیثیت سپریم کورٹ جج سوال پوچھنا میرا حق ہے ! افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے بار بار ٹوکا جا رہا ہے۔

مصنف کے بارے میں