تین موضوعات تینوں اہم، بڑی تقرری رکوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور کہ اکتوبر کا آ پہنچا مہینہ، بہا ایڑی سے چوٹی تک پسینہ۔ اکتوبر میں پسینہ نہیں آتا مگر ناکامیوں کا سامنا ہو تو پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہے۔ آس پاس کے لوگ نشاندہی کرتے ہیں۔ ”پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے“ شنید ہے بڑی تقرری اسی ہفتہ ہوجائے گی۔ شور شرابے سے تقرری رکی نہ موخر ہوئی۔ امریکا میں آرمی چیف کے اس بیان کے بعد کہ میں اپنی مدت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہوجاؤں گا۔ فوج سیاست سے دور ہوچکی اسے دور ہی رہنا چاہیے۔“ اس موضوع پر بحث اصولی طور پر ختم ہوجانی چاہیے۔ آئینی تقاضوں کے مطابق جس کی صوابدید ہے وہ نئی تقرری کردے گا۔ مگر جب سیاست اپنے گھر کی ہے قیادت اپنے گھر کی ہے تو آئین بھی عالی جاہ کی مرضی کا ہونا چاہیے۔ تقرری ہر صورت موخر ہونی چاہیے۔ نہیں ہوگی تو جلسے کریں گے شہر بند کردیں گے۔ سب دھمکیاں دھری رہ گئیں۔ جلسے کام نہ آئے۔ ان پر عوام کے دیے ہوئے اربوں خرچ ہوگئے کیا ملا؟ تحریک عدم اعتماد کے بعد کی صورتحال جوں کی توں، حکومت قائم وزیر اعظم کے اعتماد میں اضافہ، قبل از وقت انتخابات کے لیے پورا زور لگا لیا کچھ نہ بنا۔ جواب ملا اپنے وقت پر ہوں گے بلکہ حالات کے مطابق توسیع بھی ہوسکتی ہے۔ پہلے دھمکیاں نومبر سے پہلے کراؤ حواریوں کی پیشگوئیاں حکومت ہفتہ دس دن میں ختم ہو جائے گی۔ ابھی تک ہوائیاں چھوڑی جا رہی ہیں۔ لندن میں بیٹھے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ حکومت 15 اکتوبر اور 15 نومبر کے دوران آر پار ہوجائے گی۔ پتا نہیں حالات نہ بدلے تو منت سماجت پر اتر آئے کہ الیکشن آئندہ سال فروری مارچ میں کرا دیں جواب ندارد، چلیے جون میں کرا دیں پلیز حکومت نے کان بند کرلیے تو مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے سارے دور ناکام ایک ہی جواب ملا، بے ساکھیاں ہٹالی گئی ہیں۔ اپنے برتے پر لڑو، چیف جسٹس نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا مشورہ دیا۔ کس منہ سے جائیں۔ بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے“ والا معاملہ ہے کھلی جنگ کے لیے عددی قوت چاہیے لیکن ستم تو یہ ہے ہماری صفوں میں شامل ہیں۔ چراغ بجھتے ہی خیمہ بدلنے والے لوگ گزشتہ ہفتہ اپنے جاں نثاروں سے ہٹلرانہ انداز میں حلف لیا گیا۔ ”لانگ مارچ کے لیے نکلو گے، جہاد کرو گے“ اگلی صفوں کے لوگوں نے جذبہ سے جواب دیا پچھلی صفوں والے گنگنا کر رہ گئے۔ ترجمانوں کے اجلاس میں ارشاد فرمایا اکتوبر کے تیسرے ہفتہ میں لانگ مارچ کے لیے نکلیں گے۔ میانوالی کے جلسہ میں حتمی تاریخ پھر گول کر گئے۔ پنجاب اور کے پی کے کے 72 اضلاع کے ذمہ داران سے کہا گیا کہ ہر ضلع سے 6 ہزار بندے لے کر آؤ۔ تاکہ 8 لاکھ افراد مارچ میں شامل ہوں۔ پنجاب کے بیشتر اضلاع نے معذرت کرلی جس کے بعد کے پی کے اور سوات کے جتھوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ شنید ہے پنجاب کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے بھی باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ پنجاب لانگ مارچ میں فریق نہیں بنے گا جس کے بعد سے کپتان اور حواریوں کے لہجہ میں نرمی، مایوسی اور خوف جھلکنے لگا ہے اس تمام عرصہ میں مذاکرات کی کوشش جاری رہیں تاہم کسی بھی چھوٹی بڑی شخصیت سے رابطہ نہ ہوسکا۔ مذاکرات کا کھاتہ بند ہوا تو اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام آباد کی ایک خنک رات کا ذکر دروغ برگردن راوی، مگر بیان کرنے والے نے کہا میرا راوی کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس رات ایک اہم شخصیت کے گھرکے سامنے ایک اہم شخصیت کی گاڑی رکی۔ چند منٹ بعد ایک اور اہم شخصیت پہنچ گئی۔ تینوں اہم شخصیات میں اہم مذاکرات ہوئے رات بھیگتی رہی مذاکرات جاری رہے۔ ایجنڈا کیا تھا کسی کو معلوم نہیں، لیکن راوی کہتا ہے کہ دوبارہ اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد مذاکرات کا موضوع تھا آپ اقتدار میں آئے تو ہم بھی آجائیں گے پلان بی پر غور، مکافات عمل اور عبرت ناک انجام تعاقب میں ہے، رات کو اسٹیبلشمنٹ کو کھلے جلسوں میں دھمکیاں کہ قوم نیو ٹرل چوکیدار کو معاف نہیں کرے گا۔ دن کے اجالے میں اسی کے در دولت پر حاضری کی کوششیں، ہر بار شٹ اپ کال سننے کو ملی تو اپنا سامنہ لے کے رہ گئے۔ صاحب کو اپنے حسن پر کتنا غرور تھا۔ کپتان لانگ مارچ میں عددی قوت سے مطمئن نہیں۔ اسی لیے حلف بھی لیا گیا ادھر عوام میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ جن کو تہذیب نہ آداب محبت معلوم ایسے لوگوں کو یہاں کون دوبارہ لائے۔ جلسوں میں شائقین، حاضرین و حاضرات کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اسلام آباد پر دھاوا بولنے والوں کے منتظر ہیں خبروں کے مطابق 11 سو کنٹینر اسلام آباد پہنچا دیے گئے۔ لانگ مارچ کا اعلان ہوتے ہی شہر اقتدار کو ایک ہفتہ کے لیے سیل کردیا
جائے گا۔ ایسے فول پروف انتظامات کیے جائیں گے کہ پرندہ پر مار سکے نہ چرندہ چر، سیاسی محاذ پر بڑی گہما گہمی ہے ما شاء اللہ عدالتوں میں بڑی رونقیں ہیں۔ سالہا سال پرانے ہزاروں مقدمات کے بجائے صرف کپتان سے متعلق مقدمات اور درخواستیں نمٹائی جا رہی ہیں۔ جج صاحبان جلد فیصلے دینے میں مصروف ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تو تین پیشیوں کے بعد ہی خاتون جج کی توہین اور کارروائی کی دھمکی کے خلاف کیس میں معذرت کے بیان حلفی پر کپتان کو معافی دے دی۔ یاروں کو ایسی باتیں اللہ رے تجزیوں اور ٹوئٹس کے ڈھیر لگ گئے کپتان کی معافی کو طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی کے اسی قسم کے کیس سے جوڑا جانے لگا۔ نادان یہ بھول گئے کہ بندے بندے میں فرق ہوتا ہے۔ اس بندے کی تو بات ہی کیا ہے۔ ”غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہوئے“ یہاں نا اہلی سے سیاست ڈی ریل ہونے کا خطرہ تھا۔ غیر مشروط معافی مانگی نہ
اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑا تب بھی سیدھے سبھاؤ معافی مل گئی۔ اس پر بھی کپتان کو گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں تم بھی تو دلدار نہیں۔ مریم نواز کیس کے فیصلہ پر بولے ثابت ہوگیا ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں۔ تھانہ مارگلہ میں درج اسی کیس میں پیش نہ ہونے پر جج کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔ کپتان کی گھر بیٹھے ضمانت منظور ہوگئی قانون کی حکمرانی اور کیا ہوتی ہے چھوڑیے ہم کیوں پریشان ہوں آئیے سیاست کی باتیں کریں۔ پی ٹی آئی کے رہنما مصر ہیں کہ لانگ مارچ کے لیے 21 یا 22 اکتوبر کی تاریخ دی جائے گی۔ لیکن کپتان کے انتہائی قریبی ٹی وی چینل کے سینئر اینکر پرسن نے یہ کہہ کر چونکا دیا ہے کہ کپتان لانگ مارچ نہیں کریں گے ان کا کہنا ہے کہ میں بند گلی میں جانا نہیں چاہتا۔ واللہ اعلم۔ کپتان ان دنوں چومکھی لڑ رہے ہیں۔ عوام کو جوڑے رکھنے کیلئے جلسے، مذاکرات عدالتوں میں پیشیاں اور رابطوں کی کوششیں۔ پارلیمنٹ ان کے بغیر اداس ہے۔ وہ کیا گئے کہ لوٹ گئے دن بہار کے۔ جاوید اختر نے اپنے گھر کے بارے میں کہا تھا ”بڑی رونق تھی اس گھر میں یہ گھر ایسا نہیں تھا گلے شکوے بھی رہتے تھے مگر ایسا نہیں تھا“ کپتان نے پارلیمنٹ میں واپس جانے کے لیے سائفر کی تحقیقات کی شرط رکھ دی۔ حکومت نے 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی، تحقیقات ہوجائے گی بالم اب تو آجاؤ کپتان ابھی تک واپسی سے گریزاں ہیں تاہم ان پر ایک اور افتاد آن پڑی ہے۔ اوپر تلے تین چار آڈیو منظر عام پر آگئیں پارسائی کا بھرم کھل گیا کسی نے کہا کچومر نکل گیا۔ پہلی اور دوسری آڈیو سائفر کے بارے میں تھی۔ قول و فعل کے تضادات سامنے آئے۔ 54 سیکنڈ کی تیسری آڈیو میں وہ ہارس ٹریڈنگ کا اعتراف کرتے نظر آئے۔ لوگ انگشت بدنداں کپتان تو ہارس ٹریڈنگ کو شرک قرار دیتے تھے۔ اسی شرک کے مرتکب ہوئے۔ آڈیو میں وہ کہتے پائے گئے فکر نہ کریں ایسی چالیں چل رہا ہوں جو پبلک نہیں کی جاسکتیں۔ پانچ ایم این ایز خرید چکا ہوں اس (نامعلوم شخص) سے کہیں پانچ اور خریدے تو تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی۔ چوتھی آڈیو کسی پلان سی کے بارے میں ہے۔ انتہائی خطرناک، جیل بھرو تحریک، آئندہ پلان ہوسکتا ہے۔ کپتان کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں انہوں نے ان ساڑھے چار رہنماؤں سے بھی مشاورت نہیں کی۔ جو ان کے ارد گرد موجود ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پکا ہاتھ ڈالیں گے حکومت نے کپتان کی گرفتاری کا فیصلہ کرلیا ہے۔ انہوں نے کے پی کے کی طرف سے اسلام آباد کا رخ کیا تو انہیں ترنول کے مقام پر روک لیا جائے گا اور ایک موقر انگریزی اخبار کے مطابق کپتان کو بنی گالہ میں ایم پی او کے تحت نظر بند کردیا جائے گا۔ اس عرصے میں پنجاب کی طرف سے ہلہ بولے جانے کے خطرے کے پیش نظر پنجاب حکومت کے خلاف بھی کارروائی کی جانے والی ہے۔ خبروں کے مطابق ارکان سے رابطے جاری ہیں بلکہ گزشتہ ہفتہ کے دوران ان رابطوں میں خاصی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ چیمہ گروپ کے 12 ارکان نے حمزہ شہباز سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے علیم خان نے لندن میں مبینہ طور پر میاں نواز شریف سے ملاقات کی ہے اور مستقبل کی سیاست پر ان سے تبادلہ خیال کیا ہے نرا تبادلہ خیال نہیں اہم فیصلے ہوئے ہوں گے۔ جہانگیر ترین بھی بھرپور کردار ادا کرنے پر آمادہ ہیں۔ پرویز الٰہی ابھی تک لندن میں ہیں کیا کر رہے ہیں نجی دورے پر گئے ہیں کھوج لگانے والے کہتے ہیں ہنی مون منا رہے ہیں نجی معاملات میں دخل اندازی بری بات لیکن ن لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ واپسی پر گورنر پنجاب انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کو کہیں گے۔ اس سے پہلے پنجاب اسمبلی کے سپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد ٹیسٹ کیس کے طور پر پیش کی جائے گی تاکہ خفیہ رائے شماری کے دوران عددی قوت کا پتا چل سکے۔ سیاسی گیم آخری مراحل میں ہے۔ لندن میں میلہ لگا ہوا ہے۔ مریم نواز عدالت کی طرف سے پاسپورٹ واپس ملتے ہی لندن چلی گئیں ایک ماہ قیام کریں گی چار سال بعد اپنے والد اور بھائیوں سے ملاقات کریں گی اور امکان ہے کہ نواز شریف نومبر میں مریم نواز کے ساتھ ہی پاکستان پہنچیں گے۔ کیسے آئیں گے لانے والے جانیں۔ مختصر یہ کہ سیاست کا کھیل آن ہے۔ کپتان اقتدار کے لیے ہر حد کراس کرنے کے در پے ہیں وہ اکتوبر میں جی بھر کے جلسے کریں گے تاکہ نومبر تک معاملات ان کے حق میں بہتر ہوجائیں لیکن ستاروں کی چال دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا نومبر کی بڑی تقرری کے بعد انہیں بھی صبر آجائے گا نہ آیا تو نومبر ہی میں ان کے گرد شکنجہ کسا جائے گا۔ اور آئندہ فروری تک بہت کچھ ہونے کا امکان ہے ویسے بھی اوپر تلے کئی فیصلے آنے والے ہیں اللہ جانے ہمارے کپتان کہاں ہوں گے۔