دوحہ: امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والی دو روزہ بات چیت میں دونوں ممالک نہ صرف رابطے اور گفت و شنید کا نیا باب کھولنے پر رضامند ہو گئے ہیں بلکہ امریکا افغانسان کے لیے انسانی امداد پیش کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دو روزہ بات چیت کے اختتام پر امریکا نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کی حیثیت سے طالبان کو سیاسی طور پہ ماننے کے لیے فی الوقت تیار نہیں ہے۔ افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد ہونے والے پہلے دو روزہ مذاکرات کے اختتام پر امریکی وزارت خارجہ نے ہونے والی گفت و شنید کو محض پیشہ ورانہ قرار دیا ہے۔
طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے خبر رساں ایجنسی کو بات چیت کے دوران بتایا کہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی وفد پر دوران بات چیت واضح کیا کہ طالبان اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو شدت پسندوں کا مرکز نہیں بننے دیں گے۔
سہیل شاہین کے مطابق افغان وزیر خارجہ نے واضح طور پر امریکی وفد سے مطالبہ کیا کہ افغان مرکزی بینک کے زر مبادلہ پر عائد پابندی اٹھائی جائے۔ اس ضمن میں کہا گیا ہے امریکی وفد کا بات چیت کے دوران کہنا تھا کہ طالبان کے وعدوں کے بجائے ان کے طرز عمل کو دیکھ رہے ہیں اور آئندہ مستقبل کا لائحہ عمل اسی کو دیکھ کر طے کریں گے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ امریکی وفد نے بات چیت کے دوران امن و امان، دہشت گردی، امریکیوں سمیت غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کے لیے محفوظ راستے اور انسانی حقوق سے متعلق اندیشوں پر توجہ مرکوز رکھی جبکہ بات چیت میں افغان خواتین اور لڑکیوں کے امور پر بھی زور دیا گیا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق بات چیت کے دو روزہ اختتام پر حتمی طور پہ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ سکے ہیں یا نہیں۔