”تم نے پچھلے کالم میں جو لکھا وہ ادھورا سچ تھا، تمہیں اگلے کالم میں اس سچائی کی تکمیل کرنی چاہئے“ اس نے ہاتھ ملاتے ہی جملہ میری طرف اچھال دیا۔ میں نے اس کا ہاتھ تھاما اور کیمپس کے ساتھ بہتی نہر کے کنارے واک شروع کر دی۔ میں اور میرا دوست ہر صبح کیمپس کے ساتھ بہتی نہر کے کنارے واک کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، میں ایک دیہاتی آدمی ہوں اور حادثاتی طور پر شہر میں آ گیا ہوں، میری روح اب بھی دیہات ہی میں بسیرا کرتی ہے، میرا سارا بچپن دیہات میں گزرا ہے اور میں نے بچپن میں وہ سارے کام کیے ہیں جو کسان کے گھر میں پیدا ہونے والا کوئی فرد کرتا ہے۔آپ کو اگر موقعہ ملا تو گرمیوں کی کوئی صبح اور سردیوں کی کوئی شام گاؤں میں گزاریں آپ کے سارے دکھ درد ختم ہو جائیں گے اور آپ ہر لمحہ نیچر کو اپنے دائیں بائیں محسوس کریں گے۔گاؤں میں رہنے والوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بند گھروں میں ان کا دم گھٹتا ہے،میں صبح نماز کے بعد جب تک کھلے آسمان کو نہ دیکھ لوں میری روح بے چین رہتی ہے اورمجھے سکون نہیں آتا۔ گا ؤں دیہات میں رہنے والوں کو ڈھور ڈنگروں ا ور کھیت کھلیان میں کام کرنے کی وجہ سے صبح جلدی اٹھنا پڑتا ہے اور یہ نماز کے بعد سونے کے ”مرض“ سے بھی محفوظ ہوتے ہیں۔میں بھی اپنے دیہاتی پن کی وجہ سے نماز کے بعدسونے سے محفوظ اور واک اور ہوا خوری پر مجبور ہوتا ہوں۔ حسب معمول ہم واک کے لیے اکٹھے ہوئے تو دوست نے ہاتھ ملاتے ہی جملہ اچھال دیا۔میں نے پچھلے ہفتے ”زندہ مردے“ کے عنوان سے کالم لکھا تھا، اس کالم میں، میں نے پچھلے بیس سال میں پارٹیاں بدلنے والے سیاستدانوں کی جھلک دکھلائی تھی کہ کس طرح یہ ہر پانچ سال بعد نئی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں، نہ صرف شامل ہوتے ہیں بلکہ اقتدار،عہدہ اور پروٹوکول بھی انجوائے کرتے ہیں اور جب یہ حکومت ختم ہونے لگتی ہے تو یہ اگلی حکومت کی کشتی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ میرا یہ دوست بضد تھا کہ تم نے ادھورا سچ بیان کیا ہے، زندہ مردے صرف سیاست میں نہیں بلکہ یہ سماج کے ہر طبقے میں موجود ہیں۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور واک شروع کر دی، سڑک کے ساتھ بہتی نہر کے کنارے سرو قد درخت انگڑائی لے رہے تھے، سور ج کی کرنیں گھنے درختوں کے سرسبز پتوں سے چھن چھن کرتی ہمارے وجو دپر پڑ رہی تھیں، شیشم کے طویل درخت آسمان کی
ہمسری کے لیے بے چین تھے اور ان کی شاخوں پر بیٹھے خوبصورت پرندے خدائے قدیر کی حمد میں ترانہ ریز تھے، کسی طرف سے کوئل کی کوکو نے فضا میں مٹھاس گھول دی تھی اور اس خوبصورت پینٹنگ کا نکتہ عروج نہر میں تیرنے والی کشتی تھی، نوجوان ملاح کشتی کے شغف سے محظوظ ہو رہا تھا اور ہم کائنات کی اس حسین ترین پینٹنگ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ پچھلی حکومتوں نے کئی دفعہ اعلانات کیے کہ لاہور کے درمیان سے گزرنے والی اس نہر میں کشتی سروس شروع کی جائے گی مگر لاہور کا یہ خوبصورت پروجیکٹ بھی تبدیلی نامی بلا کھا گئی اور فی الحال اس پروجیکٹ کے احیا کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اگر یہ سروس شروع ہو جاتی ہے تو اہل لاہور کے لیے یہ بہترین تفریح ثابت ہو گی۔ میرے دوست نے اپنی بات دہرائی اور نظریں میرے چہرے پر گاڑ دیں، میں نے سر ہلا کر اس کی تصدیق کی اور عرض کیا ”آپ کی بات بالکل بجا ہے، زندہ مردے صرف سیاست میں نہیں بلکہ میڈیا، مذہب،تعلیم و تدریس اور سماج کے ہر طبقے میں موجود ہیں، چونکہ پچھلے کالم کا مدعا صرف سیاستدانوں تک محدود تھا اس لیے میں نے ان کا تذکرہ کر کے بات ختم کر دی۔اور دوسری بات یہ تھی کہ سیاست میں شیخ رشید، فواد چودھری اور فردوس عاشق جیسے توانا، صحت مند اور بھاری بھرکم زندہ مردے موجود تھے تو پہلا حق انہی کا بنتا تھا کہ انہیں ”خراج تحسین“ پیش کیا جائے۔جہا ں تک میڈیا اور صحافت کی بات ہے تو زندہ مردے یہاں بھی موجود ہیں، وہ تمام صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن جو نظریات کے بجائے پیسے کو اپنا قبلہ و کعبہ سمجھتے ہیں ان کے زندہ مردے ہونے میں کیا شک ہے۔جب کوئی صحافی یا کالم نگار سر عام یہ بات کہے کہ صحافت اور قلم میرا پیشہ ہے اورمجھے پیسے دے کر جو مرضی لکھواؤ تو ایسے صحافی اور کالم نگار کو زندہ مردوں کی فہرست میں شامل کرنے میں کیا حرج ہے۔ صحافت محض ایک جاب نہیں بلکہ مقدس پیشہ ہے، یہ سماج کی تعمیر کا ایک مؤثر ہتھیار ہے، صحافت جب نظریاتی تھی تو مولاناابوالکلام آزاد،مولانا محمد علی جو ہر، مولانا ظفر علی خان او ر شورش کاشمیری جیسی ہستیوں نے اسے معتبر بنایا تھا، تحریک پاکستان میں انہی نظریاتی صحافیوں اور ان کی تحریروں نے صور پھونکا تھا۔ صحافت نے جب سے نظریات کے بجائے پیسے کی غلامی اختیار کی تب سے اس میں دم نہیں رہا، آج یہ اصلاح کا مؤثر ہتھیار ہونے کی بجائے تخریب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ آج شاید ہے کوئی اس پر سوچتا ہو کہ صحافت نظریات کے بجائے پیسے کی غلام بن چکی ہے اور اس غلامانہ پن میں وہ تعمیر و تخریب کی تمیز اور ساری حدیں کر اس کر چکی ہے۔“ میں نے بات ختم کی اور نہر کنارے رکھے بینچ پر بیٹھ گیا، میں نے ایک کنکر اٹھا کر نہر میں پھینکا، پانی میں ارتعاش پیدا ہو اور ارتعاش سے بننے والی لہریں کناروں سے ٹکرانے لگیں، میں لہروں کو آبزرو کرنے میں مگن تھا کہ دوست نے میرا ہاتھ تھاما اور گویا ہوا ”اور جو لوگ مذہب کا غلط اور بے جا استعمال کرتے ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گے، آپ انہیں زندہ مردوں میں شامل کریں گے یا انہیں استثنا حاصل ہے“ میں اس کے سوال کے پیچھے چھپے طنز کو سمجھ چکا تھا، میں نے ہلکی مسکراہٹ سے اس کے طنز کو مسترد کیا اور عرض کیا ”دیکھو جو لوگ مذہب کا استعمال کرتے ہیں میں انہیں زندہ مردوں کی فہرست میں سب سے اونچے مقام پر رکھتا ہوں، مذہب انسان کے اخلاقی وجود کی تطہیر کر تا ہے اور اپنے نظریے پر ثابت قدمی اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ جو لوگ پیسے، عہدے، دولت یا دیگر مفادا ت کی خاطر مذہبی نظریات سے دستبردار ہوجاتے ہیں انہیں زندہ مردوں میں شامل نہ کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے، میں ذاتی طور پر ایسے کئی مذہبی زندہ مردوں کو جانتا ہوں جنہوں نے تھوڑے سے مادی مفاد کی خاطر نظریات کو چھوڑ کر دوسرے کیمپ میں چھلانگ لگا دی۔ یہ لوگ کسی طور قابل اعتبار نہیں ہوتے، یہ وہ زندہ مردے ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی طرح کا روپ دھار سکتے ہیں۔ ان سے اگر نظریات کی بات کی جائے تو یہ ہنستے اور آپ کا مذاق اڑاتے ہیں کہ آپ اکیسویں صدی میں نظریات کی بات کر رہے ہیں۔ پیسہ، عہدہ اور مادی مفادات ان کا قبلہ و کعبہ ہوتے ہیں اور یہ اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔“ میں بات مکمل کر کے خاموش ہوا تو دوست کے چہرے پر اطمینان تھا،یہ اس سچائی کی تکمیل کا اطمینان تھا جس کا شکوہ اس نے شروع میں کیا تھا۔ بات مکمل اور واک کا وقت ختم ہو چکا تھا، سور ج کی میٹھی کرنیں ترش اورنوکیلی کرنوں میں تبدیل ہو چکی تھیں اورسڑک پر گاڑیوں نے شور اور دھواں اڑانا شروع کر دیا تھا۔ میں نے دوست سے ہاتھ ملایا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا کہ اب صبح سے رات تک شہری زندگی کا عذاب بھگتنا تھا۔