کوفہ کسی ایک جگہ کا نام نہیں ہے بلکہ جہاں ظلم ہے اور اس پر خاموش رہنے والے موجود ہیں تو وہ جگہ ہی کوفہ ہے۔یہ الفاظ واقعہ کربلا کے شاہد اور مظلوم امام زین العابدینؓ کے ہیں۔وہ لوگ جو اپنی وفاداری کے لحاظ سے تو حضرت امام حسینؓ کے ساتھ تھے مگر مصلحت پسندی، معاملے کی سنجیدگی سے لاعلمی یا پھر خوف کے تحت خاموشی اختیار کیے رہے۔۔کوفہ کی خاموش اکثریت میں سے کچھ واقعہ کربلا کے بعد توابین اور کچھ مختار ثقفی کی شکل میں اپنی اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کھڑے ہو گئے۔مگر ایک بڑی تعداد پھر بھی ایسی رہی جنہوں نے ہنگامہ خیزی میں عبادات اور ذکر وسجود کی اوٹ اختیار کی اور کسی بھی قسم کے مشکل فیصلوں سے گریز کیا۔یہ وہ بے حس ٹولہ تھا جو ایمان کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بزدلی کی وجہ سے کوفی کہلایا۔اپنے تمام تر تنوع کے باوجود کوفہ اپنے بہادروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بزدلوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ ایک استعارہ بن گیا ہے بے حسی اور بے عملی کا۔یہ ظالموں کے کسی گروہ کا نام نہیں ہے بلکہ ظالم کا مظلوم پر ظلم دیکھ کر چپ رہنے والے اس مجمعے کا نام ہے۔یہ ایک ایسے سماج کی شکل ہے جہاں کسی ایک مظلوم کو ظالم مسلسل اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے اور اس ظلم سے نفرت کے باوجود وہاں کے لوگ تماشائی بنے اپنی اپنی عاقبت گاہوں میں دبکے رہتے ہیں۔کوفہ ایک ایسے معاشرے کا نام ہے جہاں درجنوں مسافر بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد قتل کر دیے جاتے ہیں لیکن وہاں موجودعوام کی زبانوں سے اس سب کے خلاف اف تک نہیں نکلتی۔کوفہ اس گاؤں کا نام ہے جہاں پسند کی شادی پر لڑکا لڑکی دونوں سرعام موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں اوران کے مجرمین بغیر کسی سزا کے سر اونچا
کیے گھمنڈ سے پھرتے ہیں کہ غیرت کا مصنوعی معیار انسانی جان کے تقدس سے زیادہ پختہ ہے۔کوفہ زندہ انسانوں کے اس خاموش قبرستان کا نام ہے جہاں دن کے اُجالے میں بھی لوگ اٹھا لیے جاتے ہیں۔جہاں کی گلیوں سے بوری بند لاشوں کا ملنا معمول کی بات ہے۔کوفہ اس بے حس بستی کا نام ہے جہاں محلے نذر آتش کر دیے جاتے ہیں کیونکہ اس محلے کے کسی ایک مکین نے کسی دوسرے محلے کے مکینوں کو ذہنی اذیت سے دوچار کیا تھا۔ہم یہ بات مانیں یا نا مانیں مگر ہم سب کوفہ کے رہنے والوں کا عمل دوہراتے ہیں۔کوفہ ایک شہر کا نہیں بلکہ ایک خاموش امت کا نام ہے۔جہاں پر بھی ظلم ہو اور امت خاموش رہے وہ جگہ کوفہ اور وہاں کے لوگ کوفی ہیں۔حضرت زین العابدینؓ کا فرمان ہے کہ مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی۔ہم بھی کوفہ والے بن جاتے ہیں جب کسی ظالم وجابر کو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے دیکھتے ہیں۔ جب کسی وڈیرے کو کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرتے دیکھتے ہیں اور ہماری زبانیں خاموش رہتی ہیں تو ہمارا شمار بھی کوفیوں میں ہی ہوتا ہے۔جب بھتہنہ دینے پر کئی سومزدورنذر آتش کر دیے جاتے ہیں اور ان کے قتل میں ملوث مجرم آزاد گھومتے ہیں،جب گریٹر اقبال پارک جیسے خود ساختہ واقعات ملک بد نامی کے لیے رونما کیے جائیں اور ہم خاموش تو ہم بھی کوفی ہیں۔جب ہم کسی عورت کو اس کے مار پیٹ کرنے والے شوہر کے پاس واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ ہماری مشرقی روایات یہ کہتی ہیں۔جب ہم بہنوں کو وراثت کا حق نہ ملتادیکھتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہیں۔ جب ہماری زبانیں رشوت خوروں،غاصب اور ناجائز قابضین کے خلاف خاموشی اختیار کیے رہتی ہیں توہمارا شمار بھی اہلِ کوفہ میں ہی ہوتا ہے۔پولیس کی طرف سے طاقتور سے رشوت لے کر بے گناہ کو قیدمیں رکھے دیکھ کر خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں۔قاضی کے رشوت کی عوض کیے جانے والے غلط فیصلوں پر خاموش ہم بھی کوفہ والوں کی صفوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ہمارے دوغلے معیار کا شکوہ بابا بلھے شاہؒ نے بھی کیا ہے۔
تسی حج وی کیتی جاندے او
لہو وی پیتی جاندے او
کھو کے مال یتیماں دا
تسی پج مسیتی جاندے او
تسی پھٹ دلاں دے سیندے نہیں
تے ٹوپیاں سیتی جاندے او
نفس تے چھری پھیردے نہیں
دنبے کیتی جاندے او
فرض بھلائی بیٹھے او
نفلاں نیتی جاندے او
او دسو تے سہی بھلے شاہ نوں
کی کج کیتی جاندے او
سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی عاقبت کے کوفوں میں آباد ہیں،خاموش تماشائیوں کی طرح ہماری باتیں،ہماری عبادتیں، ہماری ریاکاری،ہماری پارسائی کوفہ کے ان باسیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چھپے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہے مگر اس دوران ظلم پر خاموش رہ کر اتنا بڑا گناہ کر گئے جس سے رہتی دنیا تک چھٹکارہ پانا ممکن نہیں۔اگر ہر دور کے کوفی ظلم دیکھ کر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اپنے اپنے حصے کا احتجاج بلند کرنے لگتے تو ۶۱ ہجری کے بعد سے اب تک ہونے والی کئی کربلائیں وقوع پذیر نہ ہوئی ہوتیں۔۔۔