دوحہ: امریکا نے طالبان کیساتھ دوحہ میں ہونے والے حالیہ مذاکرات کو پیشہ ورانہ اور دوٹوک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں باتوں سے نہیں بلکہ کاموں سے پرکھا جائے گا۔
یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہی گئی ہے۔ خیال رہے کہ طالبان اور امریکی حکام کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں افغان معاشرے میں خواتین کے حقوق، انسانی حقوقم امریکی شہریوں کے محفوظ انخلا، دہشتگردی اور سیکیورٹی کے امور پر بات کی گئی۔
نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ وفود کی سطح پر ہونے والی اس ملاقات میں افغان عوام کی معاشی اور سماجی بہبود کیلئے امداد دینے پر بھی بات چیت کی گئی۔
ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت نے امریکیوں پر زور دیا کہ وہ اس کے ذخائر پر عائد پابندی کو طور پر ہٹائے تاکہ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو کنٹرول کیا جا سکے۔
اس حوالے سے طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک نئی سمت دینے پر بات کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے افغانستان کے شہریوں کو عالمی وبا سے بچاؤ کیلئے کورونا ویکسین دینے کی حامی بھر لی ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ملاقات سے قبل جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ طالبان پر امریکی مغوی مارک فریریز کی رہائی کیلئے دبائو ڈالا جائے گا، اس کے علاوہ یہ یقین دہانی بھی ضروری ہے کہ افغان سرزمین کو دوبار داعش یا القاعدہ کی آماجگاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔
تاہم امریکی حکام نے یہ وضح کیا تھا کہ طالبان سے ملاقات کا مقصد ان کے اقتدار کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ عملی مشاورتوں کا تسلسل ہے۔