اسلام آباد: پاکستان نے کہا ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی کا حالیہ اعلان امن و استحکام کیلئے مثبت پیش رفت ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں امید ہے کہ فریقین کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شرائط کے سمجھوتے کا احترام کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن کا انحصار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل درآمد اور آرمینیا کی افواج کے آذربائیجان کے علاقوں سے انخلاء پر ہو گا۔ ترجمان نے کہا کہ امن کوشش میں پاکستان اپنے برادر ملک آذربائیجان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
ادھر اقوام متحدہ نے آذربائیجان اور آرمینیا میں نگورنو کاراباخ کے علاقے میں محدود جنگ بندی کے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ روس کی مصالحتی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریز نے عالمی برادری سے جنگ بندی معاہدے کی حمایت اور دونوں فریقوں کے باہمی اختلافات پرامن طریقے سے دور کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کی اپیل کی۔
خیال رہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں جس کے دوران قیدیوں اور تنازع میں مارے جانے والوں کی لاشوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے اس بات کا اعلان ماسکو میں آرمینیائی اور آذری ہم منصبوں کے ساتھ دس گھنٹے کے طویل مذاکرات کے بعد کیا۔ انہوں نے کہا کہ آرمینیا اور آذربائیجان نے تنازع کے حل کے لئے مذاکرات پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ا دارے مطابق آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان سیز فائر معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سیز فائر معاہدے میں قیدیوں کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے وزرائے خارجہ کی مذاکرات کے لیے ماسکو میں پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی تھی۔
دونوں وزرائے خارجہ نے روسی صدر کی دعوت پر مذاکرات کیے تھے تاہم مذاکرات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی نہیں ہو سکی تھی۔آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا تھا کہ آرمینیا کو تنازعہ کے پرامن حل کے لیے آخری موقع دے رہے ہیں اور ہم ہر حال میں اپنی زمینوں کو واپس لیں گے۔ واضع رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع پر جھڑپیں جاری تھیں جس میں بھاری اسلحے کا استعمال کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے دونوں جانب ہی جانی نقصان ہوا۔ اقوام متحدہ نے بھی دونوں ممالک سے جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔
واضح رہے کہ ناگورنو قرہباخ کو بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن سنہ 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ختم ہونے کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے مقامی افراد کے پاس ہے۔ حالیہ برسوں میں ناگورنو قرہباخ پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والی یہ سخت ترین لڑائی ہے جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پُرتشدد کارروائیوں کے الزامات لگائے ہیں۔ دونوں ممالک سوویت یونین کے خاتمے سے قبل اس کے زیرِ انتظام تھے اور ان دونوں نے حالیہ کشیدگی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کی ہے۔ روس کا آرمینیا میں ایک فوجی اڈہ ہے جبکہ دونوں ممالک تنظیم کلیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) کے رکن بھی ہیں۔ تاہم ماسکو کے آذربائیجان کے ساتھ بھی اچھے روابط ہیں۔