اسلام آباد: سپریم کورٹ نے زیر زمین گیسوں سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے میں بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تھر کول پاور پراجیکٹ منصوبے پر از خود نوٹس کی سماعت کی۔
اس موقع پر معروف سائنسدان اور تھرکول میں زیر زمین گیس نکالنے کے منصوبے کے چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 8.8 ارب روپے سے 100 ڈملا اور 15-2014 میں 8 میگاواٹ کا پلانٹ لگایا اور یہ منصوبہ سندھ حکومت کا تھا۔ اکتوبر 2012 میں 900 ملین فنگاواٹ کے منصوبے مکمل ہوئے۔
جس پر چیف جسٹس نے ڈاکٹر ثمر کو کہا 'آپ اپنے منصوبے کی تعریف نہ کریں ہمیں دیکھنا ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے'۔عدالت نے استفسار کیا 'زیر زمین گیس پراجیکٹ پر 3.4 ارب روپے خرچ کے باوجود توانائی کی پیداوار صرف 8 میگاواٹ کیوں ہے'۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایک پراجیکٹ 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا جس پر 1.9 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی جب کہ 330 میگاواٹ کے تین منصوبے زیر تکمیل ہیں اور ان پر 1.77 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ درآمدی کوئلے سے چلنے والا ایک پلانٹ پورٹ قاسم دوسرا ساہیوال میں لگا۔ دونوں 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔
عدالت نے زیر زمین گیسوں سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے میں بد عنوانی پر کمیٹی تشکیل دی اور کہا کہ توانائی کے ماہرین اور سائنسدانوں پر مشتمل کمیٹی بنا رہے ہیں جب کہ عدالت کی جانب سے سلمان اکرم راجہ اور شہزاد الہیٰ کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے منصوبے میں بد عنوانی کی تحقیقات سے متعلق جواب بھی طلب کر لیا اور کہا کہ نیب بتائے اس منصوبے میں کی گئی بد عنوانی کیسے سامنے لائی جا سکتی ہے۔
عدالت نے تھر میں زیر زمین گیس منصوبے میں ملازمین کو عدم ادائیگی کا بھی نوٹس لے لیا۔