علامہ اقبالؒ اسلامی قومیت کے علمبردار تھے

علامہ اقبالؒ اسلامی قومیت کے علمبردار تھے

شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے 145 ویں یوم پیدائش کی مناسبت سے محکمہ اطلاعات وثقافت، حکومت پنجاب،بلدیہ عظمی لاہور،سٹی آف لٹریچر کے زیر اہتمام لاہو رآرٹس کونسل الحمراء میں ”جشن خودی“ کا عظیم الشان انعقاد ہوا جس میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی خدمات کو زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔حکومت پنجاب رواں برس کو اقبالؒ کے سال کے طور پر منا رہی ہے۔
ایگزیکٹوڈائریکٹر لاہو رآرٹس کونسل الحمراء محترم ذوالفقار علی زلفی نے یوم اقبالؒ کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ علامہ اقبالؒ اسلامی قومیت کے علمبردار تھے۔ہماری آزادی اقبالؒ کے دیکھے ہوئے خواب ہی کے مرہون منت ہے۔بہ حیثیت شاعر اقبالؒ عالمی شہرت رکھتے ہیں۔مفکر پاکستان کے فلسفہ خودی پر عمل کر کے ہم ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔آج کادن ہمیں اتحاد اور ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنے کا درس دیتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے لئے نئے وطن کا نظریہ دیا،اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کے لئے بھر پور خدمات انجام دیں۔ الحمراء آرٹس کونسل مصور پاکستان کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے برصغیر کے مسلم معاشرہ کی نشاط ثانیہ کے لئے اہم کردار ادا کیا۔الحمرا ء نوجوان نسل میں شاعر مشرق کی سوچ و افکار کو عام کررہا ہے۔
تقریب میں مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبالؒ کا شمار بیسویں صدی کے ممتاز شاعر، مصنف، ماہر قانون اور فلسفی کے طور پر ہوتا ہے آپ نے اپنی شاعری سے خودی کا فلسفہ پیش کیا۔ مفکر اسلام، مصور پاکستان، شاعر مشرق نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی۔ نوجوانوں کو علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر اور نصیحتوں کو عملی شکل دینا ہو گی اور ہمارے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں میں عقابی روح بیدارکریں۔آج کے دن کی مناسبت سے ہم اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ کے نور بصیرت کو عام کریں اور اپنائیں۔
حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ملت اسلامیہ کے حال کے مفکر نہیں بلکہ اس کے مستقبل کے صورت گر بھی ہیں۔ فکر اقبالؒ کا مقصد انسانی عظمت کو بیدار کرنا ہے۔ مردِحق کے کردار کی اساس عشق ہے،نوجوان نسل کو اقبالؒ کی دی ہوئی فکری تہذیب کو اپنانا ہوگا۔ علامہ اقبالؒ کی خواہش تھی کہ نوجوان ان کا پیغام سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ صاحب کردار بنیں اور صاحب فکر و نظر بھی۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف اْبھارا اور انقلابی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی رْوح پھونک دی۔
اقبالؒ ایک درد،دل سوز، دوراندیش اور فکر قومیت رکھنے والی شخصیت تھے۔ جب وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کے لیے پریشانی میں مبتلا ہو جاتے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لیے تھے۔ شاعر مشرق عقاب کی ساری خوبیاں مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی شاعری کا مسلم نوجوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کے لیے اْٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ ایک الگ وطن پاکستان حاصل کر کے ہی دم لیا۔
علامہ اقبالؒ نوجوان نسل میں ایک شاہین کی صفات کے حامل مرد مومن کی جھلک دیکھنا چاہتے تھے۔ ہمیں مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہونا ہے۔ خیالوں میں بلندی پیدا کرنااور اڑان بھی اونچی رکھنی ہے۔ خود اعتمادی کو اپنا ہتھیار بنانا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال کر ستاروں سے بھی آگے جہانوں کی جستجو کرنی ہے کیونکہ:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
یعنی نوجوان ہر قوم کا مستقبل ہیں۔ ان کو شاہین سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنی نگاہ اپنے مقصد پر رکھنی ہے۔ جیسے شاہین کی نگاہیں اس وقت تک اس کے شکار پر رہتی ہیں جب تک کہ وہ آس کو پا نہیں لیتا۔شاہین کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں۔یہی عزائم اقبالؒ نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔
علامہ اقبالؒؒ نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا۔ وہ ان کا محبوب پرندہ تھا۔شاہین خوددار اور غیرت مند،بلند پرواز، خلوت نشین اور تیز نگاہ پرندہ ہے۔ان کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں،وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتے تھے۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں،جو نوجوانوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن سکے۔ شاہین بلند پرواز ہے عام پرندوں کی طرح نیچی پرواز اس کے شایان شان نہیں۔ نوجوانوں میں بلند پروازی کی صفت پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مقاصد بلند ہوں، ان کی سوچ میں پستی نہ ہو۔ شاعر مشرق نوجوانوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر ترقی اور عظمت کے خواب دیکھنے کے بجائے علوم و فنون کے حصول کے لیے پوری دْنیا میں جہاں کہیں بھی جانا پڑے، جانے سے گریز نہ کریں۔ ترقی اور بہتری کے مواقع جہاں بھی نظر آئیں ان تک رسائی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔ شاہین ْدوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ مسلم نوجوانوں کی تربیت میں بھی یہی چیز شامل ہونی چاہیے۔شاہین کی صفات اگر کسی نوجوان میں بیدار ہو جائیں تو اس کی شخصیت ایک خوددار اور خودشناس انسان کے رْوپ میں ڈھل جاتی ہے۔
اگر ہمیں عروج حاصل کرنا ہے تو ہمیں بے نیازی کی صفت اختیار کرنا ہوگی جو اقبالؒ کے ’مرد مومن‘ کی صفت ہے۔ہماری قوم میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، کمی ہے تو صرف ایک ’دیدہ ور‘ کی، اچھے رہنما کی۔ آج ہمیں پھر اقبالؒ کی ضرورت ہے جو اس سوئی ہوئی قوم کو پھر سے جگا دے۔

مصنف کے بارے میں