اس صدی کی پہلی دہائی میں برطانیہ میں چھپنے والی یاد داشتوں کی ایک کتاب میں جو انکشافات کئے گئے تھے ان سے پتہ چلتا ہے کہ جارج بش اور ٹونی بلئیر کا پاکستان کے ساتھ طرزِ عمل کیا تھا اور نائن الیون کے بعد جو سازشیں امریکہ نے کیں وہ کس طرح پاکستان کے خلاف گئیں اور ان سے پاکستان کو کس طرح نقصان پہنچا۔ ان یاد داشتوں میں پاکستان کے خلاف مجرمانہ سازشوں کے جا بجا اشارے ملتے ہیں لیکن ایسے دو واقعات اہمیت کے حامل ہیں جن سے پاکستانی حکومت اور قوم کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچا۔ فائدہ کا امکان یہ تھا کہ ٹونی بلئیر اکثر سوچا کرتے تھے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے پر کیا انعام دیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کشمیر کے تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لئے کچھ مراعات دینے پر تیار کرنے کی کوشش کی مگر بھارت تیار نہیں ہوا۔ اس سے تو یہ ثابت ہوا ہے کہ جب بھی پاکستان کشمیر کی جنگِ آزادی کا ذکر کرتا ہے تو یہ بھارت کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کو بھی ناگوار گزرتا ہے۔ کیا بش اور بلیئر بھارتی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا ٹونی بلیئر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بش اور واجپائی کے پیغام رساں کا کردار ادا کر رہے تھے؟ صدر مشرف اگرچہ اکتوبر 2001ء میں پاکستان کو امریکی حملے سے بچانے میں کامیاب ہو گئے جس کا خدشہ تھا کہ تباہ کن بمباری سے ملک کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے گا لیکن امریکی دوستانہ برتاؤ زیادہ پریشان کن ہے۔ ایسی دھمکی امریکہ نے اپنے کسی اور دوست ملک کو کبھی نہیں دی۔ کیمپ بیل نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ واجپائی نے پاکستان سے کشیدگی کم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مذکورہ طاقتوں کا بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ جو 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں شروع ہو گیا تھا جس کی مثال وہ ہتھیاروں کی ترسیل پر پابندی تھی جو امریکہ نے پاکستان اور بھارت پر لگائی تھی جس سے سارا نقصان پاکستان کا ہوا اور بھارت کے لئے اس وقت یہ پابندی بے معنی تھی یہی اس کا فائدہ ثابت ہوا۔ جب 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ کا اصل چہرہ سامنے آیا تو پاک امریکہ تعلقات کے بانی جنرل ایوب خان نے کتاب " فرینڈز ناٹ ماسٹرز" لکھ کر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنی ڈائری میں تحریر کیا امریکہ پاکستان کو کمزور اور عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہم اس کے رحم و کرم پر رہیں۔ برطانیہ تقسیمِ برصغیر کے وقت سے ہی ماؤنٹ بیٹن کی وجہ سے پاکستان مخالف ہو گیا تھا، امریکہ کو بھارت نے 1971ء کی جنگ میں اپنا ہمنوا بنا لیا تھا اگرچہ امریکہ اسے تسلیم نہیں کرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سازش پر آج بھی کام ہو رہا ہے۔ جس کا ثبوت کیمپ بیل کا وہ طنزیہ جملہ ہے کہ یہ بات ہمارے لئے مزاحیہ تھی کہ پاکستان برطانیہ سے امید رکھے بھارت اور پاکستان سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کئے جائیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے اس پر ہر طرح سے دباؤ ڈالا جاتا ہے لیکن اس کی مدد اس طرح سے کی جاتی ہے کہ اس سے وہ کچھ حاصل نہ کر سکے۔ جیسے کے امریکہ نے پاکستان کو ایف 16 دے دیئے لیکن یہ شرط بھی رکھ دی کہ وہ اسے بھارت کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا۔ امریکہ اور یورپ شروع سے ہی پاکستان سے اپنی شرائط منواتے ہیں۔ پاکستان نے جب بھی اپنے معروضی حالات کے مطابق فیصلے کرنا چاہے تو یہاں کی حکومتوں کو تبدیل کرا دیا جاتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم پرستی کے جذبے کے پیشِ نظر قومی مفادات کے تابع ایک کامیاب آزاد اور فعال خارجہ پالیسی تشکیل دی مگر افسوس کہ پاکستان کے حکمران طبقے سامراج کے ساتھ مل گئے اور ہنری کسنجر نے بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی کے بعد سازش میں شریک ہو گئے کیونکہ بھٹو نے ایٹمی پرو گرام رول بیک کرنے سے انکار اور چین نواز پالیسی ترک کرنے کا امریکی مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔ جب سے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی ہے وزیرِ اعظم عمران خان عالمی سیاست میں بڑے متحرک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ ان سے بڑے نالاں نظر آ رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ عالمی طاقتیں حکومتوں پر اثر اندازہوتی رہی ہیں۔پاکستان کی داخلی سیاست چونکہ کمزور ہے اور ہماری ریاست یا حکومتوں پر بین الاقوامی اور علاقائی سیاست کے دباؤ کا مضبوط ہونا بھی فطری امر ہے۔ کیونکہ جب آپ داخلی سیاست میں کمزور ہوں گے تو اس کا فائدہ دیگر غیر ملکی قوتیں اپنے مفادات کے پیشِ نظر اٹھاتی ہیں۔ ماضی میں یہی ہوا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادتیں اپنے سیاسی مفادات کے پیشِ نظر بین الاقوامی اور علاقائی سیاسی مفادات کے تناظر میں موجود بڑے اور مشکل مسائل پر بڑی بات کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں۔