ہنگامہ آرائی کی سیاست

ہنگامہ آرائی کی سیاست

لاہور کے معروف یورالوجسٹ اور ہمارے کزن ڈاکٹر محمد ممتاز کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب تھی، بارات کی آمدکراچی سے تھی، ڈاکٹر کمیونٹی کے علاوہ سماج کی ایلیٹ کلاس مدعو تھی، سب خوردو نوش میں مشغول تھے کہ ہال میں افواہ گردش کرنے لگی کہ شام پانچ بجے کے بعد موٹر وے پی ٹی آئی کے کارکنان کی طرف سے بند کردی جائے گی، کیونکہ کپتان نے آج احتجاج کی کال دی ہے یہ سننا تھا کہ افراتفری پھیل گئی سب اپنی اپنی فیمیلیز کو الرٹ جاری کرنے لگے،کھانے کے بعد سب اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے،ہم نے بھی ملتان کی راہ لی،موٹر وے کھلی تھی یوں دل میں انجانی سی خوشی تھی اللہ نے چاہا تو بروقت گھر میں ہوں گے مگر ننکانہ صاحب انٹر چینج پر ہنگامہ برپا تھا کارکن دونوں طرف ٹائر جلا کر ٹریفک روک رہے تھے، صدائے احتجاج بلند کرنے پر غیر تربیت یافتہ کارکن ڈرائیور پر چڑھ دوڑے اُس کی گاڑی کو شدت سے پیٹنے اور گریبان سے پکڑ کر باہر نکالنے کی کاوش میں مصروف تھے، فیملی دیکھ کر انھوں نے جونہی ہمیں جانے کا اشارہ کیا،موقع کو غنیمت جان کر گاڑی بھگا لی، بعدا زاں ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہمیں پیر محل کے قریب کرنا پڑا مگر یہاں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی جو گاڑیوں کو بحفاظت روانہ کر رہے تھے۔
اسی شادی میں میرے کزن اعجاز شفیع فیصل آباد سے ایک روز قبل پہنچے تھے ان کے ساتھ انکی ضعیف والدہ ماجدہ بھی تھیں، بابو صابو ٹال پلازہ کے قریب پی ٹی آئی کے کارکنان موٹر وے پر پہنچ گئے جو کپتان کے قاتلانہ حملہ کے خلاف سراپا احتجاج تھے انھوں نے موٹر وے بند کر دی گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں یوں یہ فیملی بے بسی کے عالم میں کئی گھنٹے گاڑی میں محصور رہی انکی والدہ دل کے عارضہ میں بھی مبتلا تھیں۔ یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ مریض صرف ایمبولینس ہی میں ہو، بہت سے شوگر، دل، معدہ، گردہ کے مریض بظاہر صحت مند ہوتے ہیں مگر گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں ایسی ناگہانی صورت حال جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے مگر سیاسی شخصیات کے سحر میں مبتلا افراد سوچنے اور سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں۔
مشاہدہ ہے کچھ گروہ کسی مطالبہ کی حمایت میں شاہراہ کو بند کر کے عوام الناس کی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں، چند سال قبل راقم بھائی ڈاکٹر جاوید اصغر
کے ساتھ اپنے ماموں محمد بشیر عرف بابو کی عیادت کے لئے فیصل آباد جا رہا تھا گاڑی میرا بھتیجا احسن اکرام چلا رہا تھا، شہر کے قریب روشن والی جھال پر ایک ہنگامہ کی سی کیفیت تھی، تما م راستے بند تھے،لٹھ بردار ہر گاڑی کو بزور طاقت روک رہے تھے،ہم نے ان سے نظر بچا کر گاڑی نکالنے کی کوشش کی تو ایک لٹھ بردار نے پوری طاقت کے ساتھ بڑا سوٹا ونڈ سکرین پر دے مارا،مقام شکر ہے کہ کوئی نقصان نہ ہوا، انجانے راستہ پر گاڑی ڈال کر اپنی منزل پر پہنچ گئے، عمومی طور پر یہ راستے خطرناک اور غیر محفوظ ہوتے ہیں، بعد ازاں معلوم ہوا کہ اوڈھ برادری کے دو افراد کو کسی نے قتل کر دیا ہے،وارثین لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ خالصتاً قانونی معاملہ تھا۔
خبروں کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج نے مختلف شہروں میں ہنگامہ آرائی کا بازار گرم کر رکھا ہے، اور عام آدمی پریشان ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہنگاموں میں وزراء کرام شریک ہیں وہ بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، پنجاب کے وزیر اطلاعات کے سامنے خاتون راستوں کو بند کرنے پر شکوہ کناں ہے۔
ہمارا قومی وتیرہ بن چکا ہے کہ جب کوئی عوامی نوعیت کا مسئلہ ہو ہنگامی قیادت فوراً لوگوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کرتی ہے،ہر فرد قانون کو ہاتھ میں لے لیتا ہے یہ جانتے ہوئے، اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، وجہ یہ بھی ہے کہ عوامی نمائندگان ہنگامہ آرائی میں خود شریک ہوتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر ہنگاموں میں شدت دیکھی گئی،بہت سی قومی املاک اس کی نذر ہو گئیں،پوری دنیا میں سیاسی اختلافات ہوتے، سربراہان مملکت پر بھی قاتلانہ حملے ہوتے ہیں، مگر وہاں عوام کی زندگی اجیرن نہیں کی جاتی، ایسی صورت حال میں قانون جلد حرکت میں آتا ہے، یہاں غیر یقینی اور سنگین صورت حال ہوتی ہے اور ہر لمحہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔
دیکھا جائے تو اعلیٰ عسکری مناصب پر فائز افراد کی شہادت اس وقت ہوئی جب بہاولپور سے فوجی طیارہ نے اڑان بھری اور چند ہی لمحات کے بعد خاک آلود ہو گیا۔ہماری تاریخ کا یہ سب سے بڑا سانحہ تھا، جس میں اعلیٰ عسکری قیادت اللہ کے حضور پیش ہوگئی۔ اس کے باوجود عوامی سطح پر کوئی ہنگامہ آرائی نہ ہوئی،کسی نے راستے بند نہیں کیے،باوجود اس کے پوری قوم جانتی تھی کہ اس حادثہ کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما تھیں۔عوام میں جہاں دکھ اور غم پایا جاتا تھا وہاں غصہ بھی بہت تھا، دہشت گردی کی جنگ میں بھی بڑی عسکری شخصیات اور جوان شہادت کے منصب پر فائز ہوئے، کیا ان کے اہل خانہ کے سینہ میں دل نہیں ہوتا؟
جذبات کی رو میں یہ ہنگامے بلوہ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور انسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے، لاہور میں ایک مذہبی تحریک کے ہنگاموں میں پولیس والوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اس بات کی شہادت ہے کہ ہر جماعت کے کارکنان اندھی تقلید کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ تما م اخلاقی حدود پار کر جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر رکشہ ڈرائیور کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس پر پی ٹی آئی کے ورکرز نے نہ صرف تشدد کیا کیا بلکہ اسکی روزی کے واحد ذریعہ رکشہ کو ہی جلاڈالا،بسوں اور گاڑیوں کو آگ لگانا بڑی بہادری سمجھا جاتا ہے۔
مہذب ممالک نے عوامی جذبات کے اظہار کے لئے الگ مقامات مختص کر رکھے ہیں تاکہ وہاں جاکر دل کی بھڑاس نکال لے، اعدادوشمار جمع کئے جائیں تو اس طرح کی ہنگامہ آرائی میں ہزاروں افراد اب تک متاثر ہو ئے، باوجود اس کے سرکار نے سنجیدہ قانون سازی نہیں کی، بلوہ اور ہنگامہ آرائی کی سزا کاقانون موجود ہے مگر کسی کو سنگین سزا نہیں ملی ہے، ہماری بد قسمتی وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ سطح کی شخصیات سرکاری عمارات پر حملہ کرنے کے الزامات کی زد میں رہی ہیں تو عام فرد سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے۔ دنیا نئی کروٹ لے رہی ہے، ہر ُبرا واقعہ ہماری بدنامی میں اضافہ کا باعث ہے، یہ ہنگامے قانون کی عدم حکمرانی کا پتہ دیتے ہیں، جس کے اثرات بیرون سرمایہ کاری پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
سیاسی قائدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی کارکنان کی اخلاقی تربیت اس انداز میں کریں کسی صورت وہ قانون ہاتھ میں نہ لیں نہ ہی قومی املاک اور عوامی پراپرٹی کو نقصان پہنچائیں، ورنہ عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے طور پر اِن پر ٹوٹ پڑے گی۔ قانون سازی کے باوجود بھی یہ کھنڈرے باز نہیں آتے تو پھر عوام کو ایسی سیاسی جماعتوں کا سماجی بائیکاٹ کر نا ہو گا اور اس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں تاکہ عوام اور املاک اس شر اور ہنگامہ آرائی کی سیاست سے محفوظ رہ سکیں۔

مصنف کے بارے میں