جمعہ کا دن ہو اوردیکھتے ہی دیکھتے کسی گھر، محلہ،علاقہ اور شہر میں کہرام مچ جائے۔مگر افسوس ایسا جمعہ کوئی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نہیں آیا۔شاید اس قوم کو اب صبر کے گھونٹ پی لینے چاہئیں یا پھر سب کچھ تقدیر کے سر ڈال کر خاموشی کی بکل مار لینی چاہیے۔بات ہے انصاف کی، ذمہ داری کی،ادارے کے ساتھ نباہ کی،انسانیت کی بات توایک الگ ہی معنی رکھتی ہے۔ہمارے ملک میں ویسے سب سے زیادہ مشکل کسی سائل کو پولیس سٹیشن یا سرکاری دفتر میں جاتے ہوئے پیش آتی ہے،مگر پاکستان میں پولیس سے سو گنا زیادہ پریشان کرنے والا ایک ایسا ادارہ بھی موجود ہے جس سے ہر پاکستانی کا پالا نہیں پڑتااور نا ہی عام عوام کی روز مرہ زندگی میں اس ادارے کے کوئی معاملات ہیں شاید اسی وجہ کی بنا پر اسے سونے کی چڑیا بھی کہا جاتا ہے۔اس سونے کی چڑیا کا کوئی بھی دائرہ کار عام انسان اور انصاف کی پہنچ میں بالکل بھی نہیں ہے۔شاید اسی بنا پر سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا بھی کہنا تھا کہ مجھے اس ادارے کے سربراہ کے اختیارات کا اندازہ نہ تھا۔ یہ وہ ادارہ ہے جو ہر بااثر شخص کے لیے من پسند معاملات چلا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں مجبور و لاچار اور بے بس لواحقین،ورثا یتیم، بیوہ اور کمزور لوگ اپنوں کے ملنے کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر ملاقات کرتے ہیں۔جبکہ جیل میں قید حوالاتی اور قیدی بھی اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے سونے کی چڑیا کو قیمتی دانہ کھلاتے ہیں۔ ایسا دستور پاکستان کی تقریباً سبھی جیلوں میں قائم ہے لیکن اڈیالہ جیل اپنے ان معاملات کی وجہ سے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ماضی میں جیل کے اندر ہونے والے جوئے تک کی ویڈیو میڈیا پر گردش کرتی دکھائی گئی۔
کرپشن کی غضب داستانیں رقم ہوئیں لیکن اس چڑیا نے اپنی روایات نا بدلیں درخت بدلتے رہے، مالی بدلتے رہے لیکن چڑیا نے اپنا کام جاری رکھا۔ خالی چڑیا نا سمجھا جائے اس جیل میں کچھ ایسے بھی پرندے دیکھے گئے ہیں جن میں سونے کا انڈا دیتی مرغی سب سے نمایاں ہے۔ اڈیالہ جیل کے معاملات نا تو ہمارے حکمرانوں سے ڈھکے چھپے ہیں اور نا ہی اداروں کے سربراہان سے۔ شاید ہی ان جیلوں کے حالات اور سسٹم میں کبھی کوئی تبدیلی رونما ہو سکے کیونکہ پاکستان کا سیاسی نظام ہی اس کو پروان چڑھاتا ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ کبھی کسی حکومتی جماعت نے اس نظام کو تبدیل کرنے کا عملی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ جیل میں چلتی مبینہ منتھلی،ملاقاتوں کے مبینہ ریٹ، کینٹینوں کی آسمان چھوتی قیمتیں،خریداری، راشن، قیدیوں کی ڈیوٹیاں کیا کیا لکھے انسان جیل میں چلتے چکر سے بھی بڑا چکر ہے۔ یہاں ہر ایک قدم مبینہ طور پر کاغذوں میں لپٹا ہوا ہے، جس پر ایک مکمل کتاب لکھی جائے تو کم نا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری قوم ظلم سہنے کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ اب ہر نئے ظلم پر زبان سے شکوہ تک نہیں نکلتا لیکن بات جب کاغذات سے بڑھ کر انا، ضد اور ذاتی رنجش پر پہنچ جائے تو اعلیٰ حکام کو انتہائی اقدامات اُٹھانا ہوں گے۔ گزشتہ جمعہ راولپنڈی کے گنجان آباد علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن کے رہائشی عتیق الرحمان کی جوان لاش جب علاقے میں آئی تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔ اہلِ علاقہ اور لواحقین کے مطابق معمولی جھگڑا ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کر گیا اور عتیق الرحمان نے مخالفین کو ٹانگ پر گولی مار دی، جس کا ٹرائل ہوا اور کچھ عرصے بعد عتیق الرحمان کو تین سال قید کی سزا ہو گئی۔ عتیق الرحمان کو تقریباً ڈھائی ماہ قبل جیل منتقل کیا گیا۔ قریب دس دن پہلے ایک علاقہ مکین جیل گیا اور عتیق الرحمان سے ملاقات کی، جس میں عتیق الرحمان بالکل صحت یاب تھا۔ جس کے چند دن بعد عتیق الرحمان کے ایک پہچان والے سنٹرل ہسپتال گئے تو وہاں انہیں عتیق الرحمان وینٹی لیٹر پر ملا، جس کے بعد وارثان اور اہلِ علاقہ فوری طور پر ہسپتال پہنچے، سینئر ڈاکٹر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عتیق الرحمان کو ہسپتال پہنچتے ہی وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔عتیق الرحمان کی اندرونی حالت انتہائی تشویشناک تھی جس میں موجود تشد دکے عنصر کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حقیقت سے ابھی پردہ اُٹھنا باقی تھا کہ عتیق الرحمان ظالموں کی اس دنیا کو خیر آباد کہہ گیا۔ جیل ہسپتال اور پھر سنٹرل ہسپتال میں انتہائی نگداشت میں رکھنے کے باوجود عتیق الرحمان کے وارثان کو مطلع نہیں کیا گیا۔ افواہیں زیرِ گردش تھیں کہ جیل کہ ایک با اثر افسر کے ساتھ انا کی رنجش پر عتیق الرحمان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لواحقین کا بیانیہ کس قدر سچ ثابت ہوتا ہے یہ تو جوڈیشل انکوائری اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہو جائے گا لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ آئی۔جی جیل خانہ جات نے اگر اس معاملے پر کوئی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے تو وہ کمیٹی حقائق کو سامنے لانے میں کتنا وقت لے گی۔ یا پھر پاکستان کی باقی کمیشن اور کمیٹیوں کی مانند یہ رپورٹ بھی سامنے آنے تک عتیق الرحمان کے ورثا کو موت گلے لگا لے گی۔ واقع تو رونما ہوا ہے، ادارے کی تحویل میں ایک انسانی جان زندگی کی بازی ہار گئی ہے۔ ادارے کی آنکھوں اور کیمروں کے سامنے یہ واقع رونما ہوا ہے۔ جیل ہسپتال، بارک اور پھر جیل سے روانگی کے تمام لمحات کیمروں کی آنکھ میں ریکارڈ ہوں گے۔ پوسٹمارٹم رپورٹ اور جوڈیشل انکوائری سے پہلے اگر محکمہ کی رپورٹ بھی سامنے آ جائے تو شاید مرحوم کی چند ماہ کو بچی کو انصاف مہیا ہو سکے۔