ایس ایم ظفر کسی فرد کا نہیں،ایک ادارے،ایک عہد اور ایک انجمن کا نا م ہے۔وہ نہ صرف عالمی شہرت کے حامل ماہر قانون ہیں بلکہ قانون کے طلبہ اور نوجوان وکلاء کے لئے ایک بہترین استاد اور ایک قابل قدر اکیڈمی بھی ہیں۔وہ اس لحاظ سے ایک ہمہ صفت ہمہ جہت شخصیت ہیں کہ قحط الرجال کے اس دور میں وہ ایک راست فکر دانشور،معتدل و متوازن سوچ کے حامل ایک مفکر اور افہام و تفہیم کے ایوانوں میں فکر و نظر کے چراغ روشن کرنے والے ایک مدبر کے طور پر معروف ہیں۔
ڈاکٹر وقار ملک بھی ابلاغیات کے ایک استاد ہی نہیں متاع لوح و قلم کے پاسبان صحافی بھی ہیں۔انہوں نے کالموں کی ایک منفرد قسم متعارف کرائی ہے کہ جس کے ذریعے وہ عصر حاضر کی دانش کو موجودہ ہی نہیں آئندہ نسل کے لئے محفوظ کررہے ہیں۔یہ منفرد کالم گزشتہ 20سال سے مختلف اخبارات و جرائدجن میں الاخبار،حرمت،زندگی اور پاکستان شامل ہیں، شائع ہو کر شہرت دوام حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر وقار ملک معروف و ممتاز صحافی محترم زاہد ملک کے بھائی ہیں۔انہوں نے اپنی خاندانی روایت کو قائم رکھتے ہوئے کالم اور انٹر ویو کا ایک نیا اسلوب اختیار کیا ہے۔یعنی کالم ان کا ہی ہے،لیکن خیالات ان کے نہیں،ایس ایم ظفر کے ہیں۔انہوں نے بظاہر انٹرویو لیا ہے۔ لیکن یہ انٹرویو سوالات و جوابات پر مشتمل نہیں،خیالات کا نچوڑ ہے۔دانش عصر حاضر کی عکاسی ہے۔ یہ ایک منفرد صحافتی تگ و تاز ہے۔صحافت میں خبر نکالنے کیلئے تگ و دو ہوتی ہے۔لیکن ڈاکٹر وقار ملک کی تگ و تاز خیالات نکالنے،تجزیہ کے نکات لکھنے،تجاویز کو مرتب کرنے اور زیر بحث معاملے پر ایک جامع بیانیہ منظر عام پر لانے کے لئے ہے۔
مکالمہ ہمارے دوست اور علمی دنیا کی ممتاز شخصیت قلم فاؤنڈیشن کے سربراہ علامہ عبد الستار عاصم نے خوبصورت زیور طباعت سے مزین کیا ہے اور اپنی روایات کے مطابق ایک شاہکار کتاب منظر عام پر لائے ہیں۔ اس کتاب میں مکالمہ سوالیہ نہیں،بیانیہ ہے۔گویا کہ زبان میری ہے بات ان کی۔قلم میرا ہے خیالات ان کے،چراغ میرا ہے رات ان کی۔
موضوعات کو دیکھیں تو اس میں بھرپور تنوع ہے۔ان موضوعات میں تصور پاکستان،انسانی حقوق،حقوق نسواں،عدلیہ،جمہوریت،مذہب،سائنس،کشمیر،پاک بھارت تعلقات،فلسطین،بین الاقوامی امور،دہشت گردی،کالاباغ ڈیم،ذرائع ابلاغ،ثقافت وغیرہ شامل ہیں۔غرضیکہ ہماری قومی زندگی سے متعلق کوئی موضوع ایسا نہیں ہے کہ جس کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔یہ کمال ڈاکٹر وقار ملک کا ہے۔ایس ایم ظفر کا ہے،یا خود ہمارے ملکی و قومی حالات و مسائل کا،کہ بیس سال پر پھیلے ہوئے یہ کالم آج بھی تروتازہ ہیں۔زائد المیعاد نہیں ہوئے۔گویا کہ ان کالموں کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہیں۔اگر چہ بعض موضوعات پر محترم ایس ایم ظفر صاحب کے خیالات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ اختلاف بھی اس امر کی علامت ہے کہ افکار سرسری نہیں،گہرے تجزیے کا نتیجہ ہیں۔تاہم بیشتر کالم ایس ایم ظفر کے وسیع مطالعہ اور آفاقی شعور کا شاہکار ہیں۔ایس ایم ظفر کی یہ انفرادیت ہر ایسے سیمینار میں عروج پر ہوتی ہے کہ جہاں متعدد مقررین ہوں اور ایک سے ایک بڑھ کر دانشور بھی ہوں اور جہاں ایس ایم ظفر کی باری آنے تک بظاہر موضوع کا ہر پہلو زیر بحث لایا جاچکا ہو۔۔اور باقی کچھ بھی نہ بچا ہو۔۔ایسے وقت ایس ایم ظفر کئی نئے پہلو سامنے لاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل دلائل تو اب آئے ہیں۔
یہی معاملہ وقار ملک کے تحریر کردہ کالموں کا ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ کالم کسی دفتر میں نہیں،کسی لائبریری میں بیٹھ کر تحریر کئے گئے ہیں۔ایس ایم ظفر تو بلاشبہ عالمی شہرت کے حامل ماہر قانون،دانشور اور فکری راہنما ہیں لیکن بروقت،بر محل اور بر موقع سوال اٹھا کر۔۔وقار ملک بھی وقار الملک نظرآتے ہیں۔کتاب کے شروع میں وقار ملک کی 25صفحات پر مشتمل ایک منفرد تحریر ”جس ایس ایم ظفر سے آپ واقف نہیں“شامل ہے۔وہ واقعی ایس ایم ظفر کی شخصیت کے ایسے پہلو ؤں کو نمایا ں کرتے ہیں جو ان کی زندگی کا منفر دتعارف ہے۔نرم دم گفتگو گرم دم جستجو۔۔ع۔۔ہو حلقہ ئ یاراں تو بریشم کی طرح نرم اس حصہ میں ان کی وقت کی پابندی،نرمی و نرم دلی۔قانون کی پاسداری،عدالتی ذہانت۔اصول قانون کی مہارت،اپنی والدہ سے محبت،اپنے والد کشفی مرحوم کی اطاعت وغیرہ کو نمایاں کیا گیا ہے۔کتاب کے اس حصہ میں ذاتی مشاہدات اور واقعاتی شہادت ہے۔
محترم وقار ملک صاحب،جی ہاں! میں اس ایس ایم ظفر سے واقف ہوں،اپنے دور طالب علمی سے محترم ایس ایم ظفرصاحب کے مداح و معترف تھے۔1977کی تحریک میں جیل میں ان کے ساتھ تھے،انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔وہ جیل کے بہترین ساتھی تھے۔جو مل گیا کھالیا،جہاں بستر ملا وہیں مطمئن ہو کر لیٹ گئے۔جی ہاں۔۔وہ اے کلاس کے نظر بند تھے لیکن جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔وہاں جو ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا،سرگودھا میں میرے سسرال کا ایک پراپرٹی کیس تھا،جس کا لوئر کورٹ میں ان کے حق میں فیصلہ ہوا۔ہائی کورٹ میں ان کے خلاف ہوگیا۔اب سپریم کورٹ میں سماعت تھی۔میں ایس ایم ظفر صاحب کے پاس حاضر ہوا۔انہوں نے پورے اطمینان سے بات سنی۔اچھے الفاظ میں میری بحیثیت طالب علم راہنما اور بحیثیت سیاسی کارکن کارکردگی اور کردار کی تعریف کی۔پھر انہوں نے کمال محبت و مہربانی سے یہ کیس اپنے ہاتھ میں لینے پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا۔اور میرے پوچھنے سے پہلے انہوں نے از خود پیش کش کردی کہ میں آپ سے فیس نہیں لوں گا۔حالانکہ اس وقت بھی ان کی فیس لاکھوں اور کروڑوں میں تھی۔البتہ انہوں نے اپنے جونیئر (جو خود ایک معروف و محنتی وکیل تھے) کو کچھ حق خدمت دینے کا معاملہ بھی خود ہم پر چھوڑ دیا۔یہ ان کے کردار کا ایک منفرد پہلو اور میرا ایک ذاتی تجربہ ہے۔
1985کے غیر جماعتی انتخاب میں یوں بھی ہوا کہ وہ اور میں ایک ہی حلقہ سے ایم پی اے کے امیدوار تھے۔ہم جماعتی فیصلے کے پابند۔۔وہ اپنے احباب و رفقاء کی محبتوں کے اسیر۔۔چنانچہ ایک دوسرے کے حق میں دستبرداری تو نہ ہوسکی۔لیکن انتخابی مہم کے دوران باہمی احترام،مثالی شائستگی،بہترین طرز سیاست کا ایک بہترین ماحول رہا۔اور یہی شائستگی و نفاست ان کی شخصیت کا ایک جزو لاینفک ہے۔