اقبالؒ کے خواب اور قائدؒ کی کاوشوں کا ثمر

اقبالؒ کے خواب اور قائدؒ کی کاوشوں کا ثمر

علامہ اقبالؒ نے اسلامیانِ برِصغیر کے لیے علیحدہ وطن کا خواب دیکھاجسے قائدِاعظمؒ نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ قائدِاعظم کے اوّلین سوانح نگار ہیکٹربولائتھونے مسلم لیگ کے ستائیسویں اجلاس کے حوالے سے لکھا کہ اجلاس کے بعد قائدؒ نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب الحسن سے کہا ’’اقبالؒ اگر آج زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے بالآخر وہی فیصلہ کیا جس کی اُنہیں آرزو تھی‘‘۔ علامہ اقبالؒ کی دینِ مبیں اور عالمِ اسلام سے والہانہ محبت تو اظہرمن الشمس لیکن سیکولر ذہن رکھنے والے اصحاب عشروں سے قائدِاعظمؒکو سیکولر نظریات کا حامل قرار دینے کی تگ ودَو میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص ذاتی زندگی میں دین سے اتنی محبت رکھتا ہو کہ سرڈینشا کی بیٹی رتی کے ساتھ شادی سے قبل قبولِ اسلام کی شرط رکھے، اپنی اکلوتی بیٹی کی محض اِس لیے تادَمِ مرگ شکل نہ دیکھے کہ اُس نے ایک غیر مسلم سے شادی کی اور برطانوی لنکزاِن کو اپنی درسگاہ کے طور پر اِس لیے منتخب کرے کہ اُس میں دنیا کے عظیم ترین آئین دینے والوں کی فہرست میں حضرت محمدﷺ کا نامِ گرامی بھی شامل ہے، کیا وہ سیکولر نظریات کا حامل ہو سکتا ہے؟۔ جب بھی قائدِاعظمؒ کا ذکر ہوتا ہے تو سیکولر حضرات تلواریں سونت کر 11 اگست 1947ء کی تقریر لے بیٹھتے ہیں حالانکہ اُس خطاب میں قائد نے غیرمسلموں کے لیے جو کچھ کہا وہ عین اسلام ہے۔ حکمت کی عظیم الشان کتاب میںدرج ہے ’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں‘‘ (سورۃ البقرہ آیت 257 )۔ یہی بات قائدؒ نے 11 اگست کو کہی۔ اُنہوں نے کہا ’’ہم اِس بنیادی اصول کے تحت اپنی مملکت کی ابتداء کر رہے ہیں کہ سب لوگ اِس مملکت کے برابر کے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم سب لوگ اِس آئیڈیل کو مدِنظر رکھیں تو وقت آنے پر دیکھیں گے کہ نہ ہندو ، ہندو رہے گا اور نہ مسلمان، مسلمان‘‘۔ اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ وضاحت بھی فرمائی ’’مذہبی معنوں میں نہیںکیونکہ یہ ذاتی عقیدے کی بات ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے‘‘۔ کیا اِس وضاحت کا سیکولرز کے پاس کوئی جواب ہے؟۔ ویسے بھی اِس خطاب کا ایک پس منظر ہے جس سے سیکولر حضرات صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ہیکٹر بولائتھو نے لکھا ’’یہ تقریر قائدِاعظمؒ کی وسعتِ نظر اور رواداری کی بیّن دلیل ہے۔ چار دن پہلے جب وہ فاتحانہ شان سے کراچی کی سڑکوں سے گزرے تو اُنہوں نے شہر کے ہندوؤں کو خاموش اور متفکر پایا۔ آئین ساز اسمبلی کا خطبہ افتتاحیہ لکھتے وقت غالباََ یہی ہندو اُن کے مدِنظر تھے‘‘۔ انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ وہ اُمید کرتے ہیں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا جس کی مثالیں اکبرِاعظم کے دَور میں ملتی ہیں تو جواباََ قائدؒ نے فرمایا ’’اکبر نے غیرمسلموں کے ساتھ جس تحمل اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا اُس کی بنیاد تیرہ سو سال پہلے حضرت محمدﷺ صرف الفاظ سے نہیں بلکہ مفتوع ہو جانے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ اُن کے مذہب کے معاملے میں انتہائی احترام اور رواداری کے عملی مظاہرے سے ڈال چکے تھے‘‘۔ دراصل قائدِاعظمؒ چاہتے تھے کہ اقلیتوں کو یقین دلایا جائے کہ وہ پاکستان میں ہر طرح سے محفوظ رہیں گی اور مذہب کی بنیاد پر اُن سے کوئی ناروا سلوک نہیں ہوگا۔ صرف 11 اگست ہی نہیں اِس سے قبل بھی قائدؒ اقلیتوں کو یہ یقین دہانی کروا چکے تھے ۔ 13 جولائی 1947ء کو بھی قائد نے اقلیتوں کو یقین دلاتے ہوئے فرمایا ’’اِس نئی مملکت میں اُنہیں مذہب، عقیدے، زندگی اور تمدن کا تحفظ حاصل ہوگا‘‘۔ 
رہا یہ سوال کہ قائدِاعظمؒ سیکولر سٹیٹ کے داعی تھے یا اسلامی جمہوری ریاست کے تو عرض ہے کہ قائد نے کبھی بھی سیکولر سٹیٹ کی بات نہیں کی البتہ اُنہوں نے اپنے خطبات میںبیشمار دفعہ اسلامی ریاست کی تشکیل کا ذکر کیا۔ 15 نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟۔ اِس کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت تیرہ سو سال پہلے قُرآنِ کریم میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدُللہ قُرآن مجید ہماری رَہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا‘‘۔ 13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔ اُسی سال فروری میں ریڈیو پاکستان پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’پاکستان کا آئین قومی اسمبلی نے بنانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جو اسلامی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ یہ اصول آج بھی اُسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے تھے‘‘۔ قائدِاعظمؒنے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی کے نام خط میںلکھا ’’قُرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اِس میں مذہبی ومجلسی، معاشی ومعاشرتی، دیوانی وفوجداری اور عسکری وتعزیری، سب شعبوں کے احکام موجود ہیں‘‘۔ 25جنوری 1947ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اُسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابلِ عمل تھے‘‘۔ میں نے یہاں قائدِاعظمؒ کے بیشمار فرمودات میں سے محض چندبیان کیے ہیں کیونکہ کالم کا دامن تنگ اِس لیے آگے بڑھتے ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ جب یہ زمین کا ٹکڑا لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تو پھر کیا اِس میں سوائے اسلامی نظام کے کسی اور نظام کی گنجائش نکلتی ہے؟۔ کیا مملکتِ اسلامیہ میں فواحش کا بھی کوئی تصور ہے؟۔ اگر پاکستان میں ابتداََ اُم الخبائث، نائٹ کلبزاور کیبرے ڈانس جیسے فواحش موجود تھے تو اُس کی وجہ انگریزوں کا سو سالہ دَورِحکومت تھا۔تہذیبِ مغرب میںاِن فواحش کی آج بھی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر اِن فواحش کا خاتمہ کرنے کی تگ ودَو کی جارہی ہے تو اِس کی تعریف کی جانی چاہیے نہ کہ تعریض۔ جہاں تک اسلامی نظام کا تعلق ہے تو فرقانِ حمید میںطے کر دیا گیا ’’بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی کا چرچا ہو اُن کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘ (سورہ النور آیت 19)۔سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تہذیب میں بھی اِن فواحش کی گنجائش نکلتی ہے؟۔ اِس سلسلے میں عرض ہے کہ دینِ مبیں میں جہاں مردوں کو نگاہیں نیچی کرنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم ہے وہیں عورتوں کے لیے بھی یہ حکم ’’تم اپنے گھروں میں رہو اور پہلے زمانے کی جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنی زیب وزینت دکھاتی نہ پھرو‘‘ (سورۃ الاحزاب آیت 33)۔ شراب کے بارے میں پہلا حکم سورۃ البقرہ 219 میںیوں ہوا ’’وہ پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہیے اِن دونوں میں بڑا گناہ ہے، اگرچہ اِن میں لوگوں کے لیے کچھ نفع بھی ہے مگر اِن کا گناہ اِن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘۔ پھر سورۃ النساء آیت 43 میں حکم ہوا ’’اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ‘‘۔ آخری اور حتمی حکم یہ صادر ہوا ’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بُت اور پانسے گندے شیطانی کام ہیں۔ اِن سے بچتے رہو تاکہ فلاح پاؤ‘‘ (سورۃ المائدہ آیت 90)۔ حدیثِ نبویﷺ ہے ’’اللہ نے لعنت بھیجی ہے شراب پر، اِس کے پینے والے پر، اِس کے پلانے والے پر، اِس کے بیچنے والے پر، اِس کے خریدنے والے پر، اِس کو لے کے جانے والے پر، اِس کو کشید کرنے والے پر اور اُس شخص پر جس کے لیے یہ لیجائی گئی‘‘ (ابوداؤد)۔ جب دین کی بات ہوتی ہے تو سیکولرز رجعت پسندی کا لیبل چپکانے میں دیر نہیں کرتے حالانکہ حقیقت بالکل اِس کے برعکس۔ سیکولر حضرات ہمیں پندرہ سو سال  پہلے کے اُس دَور میں لے جانا چاہتے ہیں جب معاشرہ مادرپدر آزاد تھا۔ جب عریانی، فحاشی، بے پردگی، رقص وسرود کی محفلیں، شراب، جوا اور مردوزَن کا اختلاط عام تھا۔ عریانیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ برہنہ ہو کر طوافِ کعبہ کرتے تھے۔ ایسی ہی قوموں پر عذاب نازل ہوتے رہے۔ چودہ سو سال پہلے ریگزارِ عرب میںدینِ مبیں کا نور پھیلاجس کی ضیاء نے اِن تمام فواحش کا خاتمہ کر دیا۔ ہم تو چودہ سو سال پہلے کی بات کرتے ہیںجبکہ سیکولر اُس سے بھی ایک صدی پیچھے کی۔ پھر رجعت پسند کون؟