عمران خان کا جہاد

07:37 AM, 11 Nov, 2021

عین اس وقت جب ٹیلی ویژن مذاکروں، اخباری کالموں اور سوشل میڈیا پر ہونے والے نسبتاً آزاد تجزیوں میں قومی مباحث کا موضوع کل گیارہ نومبر کو آئندہ انتخابات کے طریق کار یعنی الیکٹرک مشینوں کا استعمال اور بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو بذریعہ ای میل ووٹ کا حق دینے یا نہ دینے کا عدالتی فیصلے کی نذر ہونے والا معاملہ زیر بحث تھا… عمران حکومت جو الیکٹرک مشینوں اور ای میل کے استعمال کا طریق کار استعمال میں لانے کو انا کا مسئلہ بنائے ہوئے ہے اس پر ڈٹی نظر آتی تھی… مقابلے میں اپوزیشن متحد ہو کر اس کی ہر حالت میں مخالفت پر تلی کھڑی تھی اچانک کل صبح ساڑھے نو بجے ملک کی سب سے بڑی عدالت انصاف یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک سکول پر ازخود نوٹس کی کارروائی کے آغاز وزیراعظم کو فوری طو پر اپنے روبرو پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا… پوچھنا یہ مقصود تھا کہ 17 دسمبر 2014 کو اتنے بڑے اور قوم کے نونہال بچوں سمیت 145 افراد کو خون میں نہلا دینے والے سانحے پر 2019 میں جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اس پر ابھی تک عملدرآمد کیوں نہیں ہوا… ملک کا اتنا بڑا انٹیلی جنس نظام کہاں تھا… اس قدر شدیدغفلت پر اس وقت کے آرمی چیف اور انٹیلی جنس سربراہ کے خلاف کیا کارروائی کی گئی… تعمیل ارشاد میں وزیراعظم عمران بہادر فوراً عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہو کر عرض کناں ہوئے وہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں… لہٰذا جیساارشاد ہو گا ویسے ہی عمل ہو گا… عدالت عظمیٰ کا سوال تھا اس خونیں واقعے پر جو رپورٹ 2019 میں پیش کر دی گئی تھی اس پر اب تک عملدرآمد کیوں نہیں ہوا… پھر سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے… حکم صادر ہوا کہ چار ہفتے بعد حکومت کی جانب سے باقاعدہ پیش ہو کر بتایا جائے کہ رپورٹ پر کتنا عملدرآمد کیا گیا اور کتنا نہیں… تاہم پہلی پیشی کے دوران ہی بنچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے بہت اہم نکتہ اٹھا دیا کیا پاکستان جو دنیا کی چھٹی بڑی ایٹمی طاقت ہے کیا ایک اور سرنڈر کی جانب بڑھ رہا ہے… ان کا واضح اشارہ اس معاہدے کی جانب تھا جو تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور حکومت کے درمیان ہو چکا ہے یا ہونے جا رہا ہے… جس کے مندرجات کو ابھی تک خفیہ رکھا جا رہا ہے… ابھی تین روز قبل قومی اسمبلی میں سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ، انٹیلی جنس کے سربراہوں، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے علاوہ تمام منتخب جماعتوں کے سربراہوں یا نمائندوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم عمران خان البتہ تشریف نہ لائے… کیونکہ اپنے بقول کرپٹ لوگوں سے ہاتھ ملانا منصب کی توہین ہے… کون حقیقی معنوں میں کرپٹ ہے کون نہیں… یہ تو ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا… البتہ سیاسی الزام بازی کا بازار گرم ہے لیکن وزیراعظم بہادر نے جو سیاسی انائوں سے بری طرح مغلوب محض اس وجہ کی بنا پر نیشنل سکیورٹی کو درپیش اتنے اہم موضوع پر ہونے والے اتنے اہم ترین اجلاس میں فوجی قیادت کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں شریک ہونا پسند نہیں کیا… سیاست بازی سے کام لیا لیکن کل 9 نومبر کو سپریم کورٹ کی جناب میں اچانک نوٹس پر حاضری دینی پڑی… یہ خبر عام ہوئی تو ظاہر ہے الیکٹرک ووٹنگ کا معاملہ پیچھے رہ گیا اور یہ واقعہ قومی مباحثے کا غالب حصہ بن گیا… لیکن اس قدر سنگین نوعیت کی بہت بڑی پنڈورا بکس کھل کر رکھ دینے والی سماعت کو چونکہ اگلے ایک ماہ کے لیے متاخر کر دیا گیا ہے لہٰذا توقع تھی کہ آج گیارہ نومبر کو الیکٹرک ووٹنگ مشینز کا معاملہ دوبارہ قومی اسمبلی میں رائے شماری کا موضوع بن جائے گا…ایسا ہوا بھی مگر جیسا کہ آگے چل کر آپ کو معلوم ہو گا یہ معاملہ بھی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گیا… عمران نے جس جہاد کا اعلان کیا وہ اپنی جگہ بڑے سرنڈر کی شکل اختیار کر گیا…
گزشتہ کل یعنی 9 نومبر کو حکومت کو دو پرائیویٹ بلز کی منظوری کے مسئلے پر دو مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا… لہٰذا حزب اختلاف کی تمام جماعتیں بڑی اور چھوٹی دونوں طرح کی اس اعتماد سے سرشار تھیں کہ اس مسئلے پر بھی حکومت کو شکست سے دوچار کیا جا 
سکتا ہے… اس بات کو یقینی بنانے کی خاطر حکومت کی چھوٹے درجے کی اتحادی جماعتوں مثلاً پنجاب کی ق لیگ اور شہری سندھ کی ایم کیو ایم، اسی طرح بلوچستان اور اندرون صوبہ سندھ کی چھوٹی پارلیمانی جماعتوں سے بھی روابط قائم کیے جا رہے ہیں… اس مقصد کی خاطر شہباز شریف کی جانب سے باقاعدہ عشایے کا اہتمام کیا گیا جس میں حزب ہائے اختلاف کے دیگر پارلیمانی رہنمائوں کے علاوہ بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی… عمران حکومت کو شکست سے ہمکنار کرنے کی خاطر شہباز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کیا… یہ بھی طے ہوا کہ مل کر جلسے اور جلوس بھی نکالے جائیں گے… پُرزور عوامی مظاہرے ہوں گے… اعلیٰ عدالتوں سے بھی رجوع ہو گا تاکہ آئندہ عام انتخابات کے دوران الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کی آڑ میں 2018 میں آر ٹی ایس کی کہانی نہ دہرائی جائے اور اسی برس ماہ فروری میں ڈسکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی چنائو میں پرلے درجے کی ننگی اور بدبودار حد تک جو دھاندلی کی گئی ہے اور جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی تفصیلی رپورٹ نے لاقانونیت کے پردے چاک کر کے رکھ دیئے ہیں انہیں باردگر اپنی تاریخ کا حصہ نہ بنایا جائے… اس سلسلے میں حزب اختلاف کی تمام جماعتیں عزم بالحزم کے ساتھ حکومت کو آئینہ دکھانے کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہیں… مگر دوسری جانب عمران حکومت بھی بظاہر پیچھے رہنے والی نہ تھی… اس نے بھی کمر باندھ لی… کل گیارہ نومبر کو سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد وزیراعظم بہادر نے بھی اپنی جماعت اور اس کے اتحادی ارکان کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے سے پُرزور خطاب کیا … ان سب کے حوصلے بڑھائے کہ باوجود تمام تر مشکلات کے انہیں گیارہ نومبر (آج) کی رائے شماری میں جہاد کی مانند حصہ لے کر اپنی کامیابی کو یقینی بنانا چاہئے… اپوزیشن کی شکست میں ہماری فتح کا راز پایا جاتا ہے… ہمیں الیکٹرک ووٹنگ مشینز اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ای میل کے نظام کے ذریعے اپنی انتخابی کامبای کو یقینی بنانا ہو گا… آج جب قارئین یہ سطور ملاحظہ کر رہے ہوں گے دونوں طرف کے پہلوان اکھاڑے میں اترنے کی مکمل تیاریوں میں مصروف ہونے چاہئیں تھے … اگر تحریک انصاف جیت جاتی ہے تو ظاہر ہے اس کے یہاں فتح کے شادیانے بجنے تھے اور اگلے چنائو میں کامیابی کے بارے میں اعتماد کے لیے ان کے یہاں چھا جائے گی بصورت دیگر اپوزیشن کی جماعتیں آئندہ انتخابات کے انعقاد کو جلد از جلد اور آخری حد تک شفاف بنانے کے لیے پوری طرح مستعد ہو جائیں گی… پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہار کے نتیجے میں ان کا پروگرام اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے اور پُرزور عوامی اجتماعات کا بھی ہے لہٰذا ایک سیاسی دنگل کا سماں بندھے گا جسے افراد قوم نہیں پوری دنیا دیکھے گی… گزشتہ کل 10 نومبر کو آرمی پبلک سکول کے سانحے کے حوالے سے عمران خان کو عدالت عظمیٰ کے سامنے جس پیشی کا سامنا کرنا ہے اس نے ان کی اخلاقی پوزیشن کو خاصا متاثر کیا ہے… اس پر مستزاد پرائیویٹ ممبرز کے دو بلوں پر حکومت کے مقابلے میں ان کی کامیابی نے ایک نیا جذبہ اور اعتماد دیا ہے… اپوزیشن عمران بہادر کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے جلد از جلد فارغ کرنے پر تلی ہوئی ہے اس کا بھی بہت زیادہ انحصار آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجتماع میں ہونے والی ووٹنگ پر تھا کہ دیکھئے کیا نتیجہ سامنے آتا ہے… مگر اے قارئین باتمکین آخری اطلاعات کے مطابق حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجتماع موخر کرنے پر مجبور ہو گئی ہے… دوسرے الفاظ میں اس کے سامنے شکست کے امکانات روشن تر ہو گئے ہیں…  اتحادی جواب دے گئے ہیں… اکثریت باقی نہیں رہی… جہاد کہیں کا نہیں رہا… اب اپوزیشن جلد از جلد آزادانہ اور شفاف ترین چنائو کا شدت کے ساتھ مطالبہ کرے گی اور اپنے ارادوں کے مطابق عمران بہادر کو ناکوں چنے چبوائے گی…
مگر اپوزیشن کچھ بٹی ہوئی بھی ہے… عمران خان کی رخصتی کب عمل میں لائی جائے… شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) میں حامی افراد کا گروہ… پوری کی پوری پاکستان پیپلز پارٹی اور دبے دبے لفظوں میں کہنا پڑ رہا ہے ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا غالب حصہ ان کی اقتدار سے فوری رخصتی کے خواہشمند ہیں… ملک کی معیشت کی جو آخری درجے کی حد تک بگڑی صورت حال ہے یعنی پچھلے ستر برسوں میں اتنی شدید نہ تھی کہ ملک چل رہا ہے نہ غریب کیا عام آدمی کو دو وقت کی روٹی آسانی سے میسر ہے وہ متقاضی ہے کہ اس حکومت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کیا جائے… اس امر کی خاطر ہر آئینی و دستوری راہ عمل اختیار کی جائے… دوسری جانب قائدین حزب اختلاف میں سب سے مقبول لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے حقیقی سربراہ میاں نوازشریف بہت زیادہ جلدبازی سے کام لینے کے حامی نظر نہیں آتے… ان کی نپی تلی رائے ہے… (1) حکومت کو آئینی مدت پورا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے… جس میں صرف ڈیڑھ برس کا عرصہ باقی رہ گیا ہے… (2) عمران کو سیاسی شہید بن کر عوام کے سامنے آ کر رونے دھونے کا موقع بھی نہ دیا جائے… وہ بروقت انتخابات میں کھل کر شرکت کریں… اپوزیشن کی جماعتوں کا جی بھر کر مقابلہ کریں… جتنے کچھ مقبول ہیں وہ اظہر من الشمس ہے… آزاد اور شفاف انتخابات میں ان کی شکست نوازشریف کے نزدیک نوشتہ دیوار بن چکی ہے… (3) اس مقصد کی خاطر انہیں الیکٹرک ووٹنگ مشینز جیسے دھوکہ آمیز طریق کار کو اپنانے کے لیے ہرممکن طریقے سے روکا جائے… ظاہر ہے اس نکتے پر نوازشریف اور بقیہ حزب اختلاف ہم خیال اور یک زبان ہو جاتے ہیں… مگر پیپلز پارٹی اور چھوٹے میاں صاحب خاصی جلدی میں ہیں… ان کے برعکس نواز کا خیال ہے کوئی حکومت تو خواہ کتنی غیرآئینی ہو عدم مقبولیت کی معراج پر پہنچی ہوئی ہو اپنی مدت پوری کرے… دوسری ہر صورت نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے ڈیڑھ برس کا عرصہ باقی رہ گیا ہے… عمران جاتے جاتے بھی اتنا عرصہ تو لے جائے گا پھر اسے شہید بننے یا رونے دھونے کا موقع کیوں دیاجائے… دیکھیے کس کی سٹرٹیجی کامیابی کا منہ دیکھتی ہے…

مزیدخبریں